ہم کہاں کھڑے ہیں؟



سنیا گیلانی
علامہ اقبال کی فکری کاوشوں، قائداعظم محمد علی جناحؒ کی عملی جدوجہد اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کی جان ومال کی قربانیوں کے نتیجے میں 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لوگوں نے اپنی جان ومال کی قربانیاں اس لیے دی تھیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ آئندہ نسلیں آزاد اور ترقی یافتہ فلاحی اسلامی ریاست میں پرسکون زندگی گزاریں۔ لیکن افسوس یہ خواب ،خواب ہی رہا کیونکہ قائداعظم محمدعلی جناحؒکی بے وقت وفات نے انکے پاکستان کو جاگیرداروں ، لیڑوں، وڈیروں مفادپرست سیاست دانوں کے دستِ تسلط میں گروی رکھ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسا نظام قائم ہو گیا جسکے تحت اسلامی جمہوری ریاست کے خدوحال آغاز سفر میں ہی دھندلاگئے اور وہ لوگ حکومت کے ایوانوں پر قابض ہوگئے جو اس جدوجہد ِآزادی میں شریک ہی نہیں تھے۔ چنانچہ اس قبضہ گروپ نے نوزائیدہ ملک کو نوچنا شروع کر دیا اور پاکستان اپنے آغازِ سفر سے ان گنت مصائب کی لپیٹ میں آگیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی وفات سے لیے کر آج تک پاکستان ان گنت مسائل کی لپیٹ میں ہے وقت کی اس تیز دوڑ میں امیر ،امیرسے امیر تر اور غریب غریب سے، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کب تک اس نظامِ جبر میں پستی رہے گی؟ کیا پاکستانی قوم ترقی یافتہ اقوام کے درمیان اسی طرح معاشی ، سیاسی ،سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر پہچانی جاتی رہے گی؟ کیا بھارتی اور مغربی دانشوروں کے بقول پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طورپر تسلیم کرلیا جائے گا ؟کیا پاکستان میں گیس وبجلی کا بحران کرپشن، اقرباپروری اور دہشتگردی جیسے گھمبیر مسائل عوام کے سرپر ہمیشہ منڈلاتے رہیں گے؟کیاان مسائل کی موجودگی میں پاکستان میں کسی قسم کی مثبت اور حقیقی تبدیلی آنا ممکن ہے ؟یہ وہ سوال ہیں جو آج ہر شخص کے ذہین میں اُبھر رہے ہیں لیکن قوم پر چھائی ہوئی مایوسی ، افسردگی اور خوف وہراس کی وجہ سے کسی کے پاس ان کا کوئی جواب موجود نہیں۔ ہاں چند ازہان اور کچھ بیدارمغز جوان ہمت لوگ اب بھی موجود ہیں جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کی جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں اگر ان مسائل کو حل کرنے میں مزید تاخیر کی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی کئی نسلوں کو اس کا خمیازہ اُٹھاناپڑے۔ مختصراً یہ کہ اس وقت ملک جن مشکلات اور دہشت گردی جیسے مصائب کا شکار ہے اس کا تقاضا کہ حکمران طبقہ اور عوام ملکر جذبہ حب الوطنی سے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں اور قوم کو معاشی بدحالی ، سیاسی نتشار ، دہشت گردی اورتعلیمی پسماندہ سے نکلنے کے لیے موثرپالیسیاں بنائیں تاکہ ملک کومعا شی ، سیاسی ، سماجی طور پر مستحکم بنایا جا سکے ۔ حکمرانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ ان ظالم درندوں کو عبرتناک سزائیں دیں جو ملک میںدہشت گردی اور کرپشن میں ملوث ہیں کیونکہ صرف تحریریں لکھ دینے سے یا ٹاک شوز میں باتیں کرنے سے ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے جب تک کہ عملی طورپر اس کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر ایوانوں میں بیٹھے حکمران اپنی کرسی بچانے کی بجائے ملکی مفادات کو اہمیت دیں تو یقینی طور پر پاکستان کے مسائل کافی حد تک حل ہو جائیںگے ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے (آمین) ٭…٭…٭