قیمت



بینش احمد
کسی چھوٹے سے شہر میں ایک بہت ہی غریب لڑکا تھا۔ وہ گھر گھر پھر کر مختلف اشیاء بیچ کر اپنا گزارا کیا کرتا تھا اور اسی طرح اُس نے اپنی تعلیم جاری رکھی ہوئی تھی۔ اکثر وہ اپنے سکول کے راستے میںآنے والے گھروں میں چیزیںفروخت کرتا تھا۔ ایک دن وہ اسی طرح سکول سے واپسی پر گھر گھردروازہ کھٹکھٹا کر چیزیں بیچتا جا رہا تھا کہ اُسے شدید قسم کی بھوک محسوس ہوئی جبکہ اُس کے پاس فقط ایک سکہ موجود تھا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اب اگلے دروازے پر وہ کچھ کھانے کیلئے مانگے گا۔ بھوک کی وجہ سے اُس لڑکے کی حالت بُری ہو رہی تھی کہ ایک نوجوان عورت نے دروازہ کھولا۔ اُس عورت نے جب لڑکے کی حالت دیکھی تو اُسے محسوس ہوا کہ وہ شاید بہت بھوکا ہے لہٰذا اُس عورت نے اُسے پینے کیلئے گلاس بھر کر دودھ دیا۔دودھ پی کر لڑکے کی جان میں جان آئی۔ خالی گلاس لوٹاتے ہوئے اُس نے عورت سے پوچھا:’میں آپ کا کتنا مقروض ہوں ؟ مجھے آپ کو کتنے پیسے دینے ہیں؟ ‘ ’’تم میرے مقر و ض نہیں ہو اورتمہیں مجھے کچھ نہیں دینا۔‘‘ عورت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ہماری والدہ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمدردی اورمہربانی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘‘۔ یہ سُن کر لڑکے نے کہا:’’تو پھر میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘ وہ لڑکا جب اُس گھر سے نکلا تو وہ جسمانی طور پر زیادہ مضبوط نہیں تھا لیکن اللہ پر اُس کا یقین اور اُس کی اقدار بہت مضبوط ہو چکی تھیں،اُس کی شخصیت مضبوط ہو گئی تھی۔ اس بات کو بہت عرصہ گزر گیا۔ وہ نوجوان عورت شدیداور خطرناک قسم کی بیماری میں مبتلا ہو گئی۔ اُس شہر کے سارے ڈاکٹروں کو بیماری کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی اور بالآخر اُنہوں نے اُس کو بڑے شہر علاج کے لئے بھجوا دیا، جہاں ایک سپیشلسٹ نے اس کا علاج کرناتھا۔ مشورے کے لئے ڈاکٹر اورنگزیب کو بلایا گیا۔ جب ڈاکٹر نے اُس شہر کا نام سُنا جہاں سے اُس عورت کو لایا گیا تھا تو اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی۔ وہ جلدی سے اُٹھا، اپنا سفید گاؤن پہنا اور اُس عورت کے کمرے کی جانب چل دیا۔ اُس عورت کو ایک ہی نظر میں اورنگزیب نے پہچان لیا اور واپس اپنے دفتر میں پہنچ کر اُس نے خاص توجہ اور دھیان سے عورت کے کیس کو پڑھا اور پوری دیانتداری اور محنت سے اُس کا ممکنہ حل تلاش کرنے میں مصروف ہو گیا۔ بالآخر اُس عورت کی جان بچ گئی۔ ڈاکٹر اورنگزیب نے ہسپتال انتظامیہ سے گزارش کی کہ وہ اِ س خاتون کا بِل ادائیگی کیلئے اُس کے دفتر بھجوا دے۔ ڈاکٹر نے اُس پرچے کے کونے پر کچھ لکھا اور واپس اُس عورت کو بھیج دیا۔ جب بِل کا لفافہ اُس عورت کو ملا تو اُسے کھولنے میں وہ تھوڑا ہچکچا رہی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ اس بل کو ادا کرنے کیلئے اُسے اپنا سب کچھ بیچنا پڑے گا۔ بالآخر اُس نے لفافہ کھولا اور اُس کے کنارے پر لکھے ایک جملے نے اُس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ اُس نے وہ الفاظ پڑھنے شروع کیے ’ ’مکمل ادائیگی ایک گلاس دودھ کا بدلہ‘‘ اورنگزیب علی۔ زندگی میں بے لوثی سے کیا گیا کوئی بھی کام کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ جو کچھ آپ کرتے ہیں، خواہ اچھا ہے یا بُرا، اُس کا نتیجہ کبھی نہ کبھی ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ ٭…٭…٭