Nice Sharing
Thanks for Sharing
تھینک یو اور سوری منٹو! 18 جنوری 1955ء اُردو افسانے سے منٹو کے بچھڑنے کا دن
مشتاق شیدا
اٹھارہ جنوری 1955ء، اردو افسانے سے منٹو کے بچھڑنے کا دن۔کالج سے ہوسٹل کی طرف جاتے کسی نے منٹو کے انتقال کا بتایا تو میں واپس کالج جانے کی بجائے پاک ٹی ہاؤس چلا گیا۔ کاؤنٹر کے عقب میں پیغامات اور خطوط کے بورڈ پر منٹو کے انتقال کی ایک اطلاعی چٹ لگوا دی۔ رات گئے تک ٹی ہاؤس کے لوگ منٹو پر باتیں کرتے رہے۔ اگلی صبح میں نے کالج سے چھٹی کی اور لارنس گارڈن میں گھومتا رہا۔ ان دنوں ایک خوبصورت سی واردات نے میرے ذہن و دل کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور میں بڑے پیارے پیارے خط لکھا کرتا تھا۔ نفسیات کے پروفیسر احمد کمال کا حکم تھا کہ میں اپنا ہر خط انہیں دکھایا کروں۔ وہ استاد ہونے کے علاوہ میرے بیلی بھی تھے۔ دوسرے دن کلاس ختم ہونے پر گذشتہ دن کی غیر حاضری کا پوچھا تو میں نے کہا کہ بس جی نہیں چاہا۔ منٹو کے مرنے پر میں ایک دم بے حد غمگین ہو گیا تھا۔ کہنے لگے ’’ہاں ایسا تو ہونا ہی تھا۔ منٹو تمہارا ہیرو تھا اور جب وہ زندگی کے المناک ترین حادثے سے دوچار ہوا تو تم نے اس حادثہ کی اذیت کو اپنے ہیرو کے ساتھ Share کیا۔ یہ سب تمہاری شدید وابستگی کے سبب ہوا‘‘۔ پروفیسر احمد کمال میرے سوالوں کے جواب عموماً تحلیل نفسی کے تحت دیا کرتے تھے۔ اتوار:… منٹو کی یاد میں حلقۂ ارباب ِذوق کا تعزیتی اجلاس۔ وائی ایم سی اے کے بورڈ روم کی فضا اس دن خاصی بوجھل تھی۔ معمول کی خوش گپیوں کی بجائے لوگ بجھی بجھی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ کوئی آہستہ آہستہ سگریٹ پی رہا تھا۔ کوئی دبی آواز میں قریب بیٹھے ساتھی سے منٹو اور اس کی بیماری کے بارے معلومات کا تبادلہ کر رہا تھا۔ حلقے کی حاضری غیر معمولی تھی اور دیر سے آنے والے کرسیوں کے پیچھے یا دیواروں کے ساتھ افسردہ کھڑے تھے۔ طویل عرصہ گزرنے کے سبب آج زیادہ تفصیل یاد نہیں آ رہی۔ بس اتنا یاد ہے کہ شاد امرتسری، منٹو کے بارے میںجب اپنی نظم پڑھنے لگے ،تو پہلا شعر ختم ہونے پر ہی بلکنے لگے اور ان کی نظم پاس بیٹھے کسی ساتھی نے پڑھ کر سنائی۔ منٹو کے دوستوں نے زبانی اور تحریری خراج پیش کیا اور تعزیتی قرارداد کے بعد سب لوگ سر جھکائے رخصت ہو گئے۔ راہداری سے نکل کر میں باسکٹ بال کورٹ میں کھڑا دیر تک اس بڑے ہال کی طرف دیکھتا رہا، جہاں گذشتہ کسی برس حلقۂ ارباب ِذوق کا سالانہ اجلاس مولانا صلاح الدین احمد کی صدارت میں ہوا تھا اور جس میں منٹو نے اپنا مشہور افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ پڑھ کر سنایا تھا۔ لطیفی مرحوم نے اپنے بھائی میرا جی کی آزاد نظم ’’یہ میں ہوں اور یہ میں ہوں‘‘ اپنی گھن گرجتی آواز میں سنائی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ اجلاس ختم ہونے پر منٹو راہداری کے راستے باہر نکلتے ہوئے کسی دوست کو افسانے کے پاگل کردار سے کہلوائے ہوئے مہمل جملوں کے بارے بتا رہا تھا کہ افسانہ پڑھتے ہوئے میں نے سکرپٹ سے باہر بھی کئی بکواسی لفظ بول دئیے۔ منٹو… تم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میں اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہوں۔ تمہارے اس اعلان پر کسی کو اعتراض کی جرأت نہ ہوئی۔ تمہارا یہ اعلان خود ستائی نہ تھا بلکہ اس حقیقت کا انکشاف تھا ،جس سے تمہارے مداح اور معترض دونوں آگاہ تھے۔ یہ حقیقت آج چھتیس برس گزرنے پر بھی اٹل ہے۔ شاید کوئی اور تمہاری جگہ آ جائے، مگر ا اب وہ لاہور اور وہ بمبئی نہیں ہو گا، جہاں کوئی موذیل کوئی ایشر سنگھ کوئی ممد بھائی یا بابو گوپی ناتھ اپنی اپنی کہانی لئے تمہارے جیسے کسی داستان گو کو سنانے کے لئے منتظر ہوں گے۔ بہرحال… تھینک یو منٹو۔ تم نے اردو ادب کو شہکار کہانیاں دے کر عالمی ادب کے ہم پلہ کیا۔ مگر… سوری منٹو۔ ہم اپنے عظیم لوگ بہت جلد فراموش کر دینے کے عادی ہیں اور تمہاری فراموشی اب قریب تر ہے بلکہ آج کل تو ہم عارضی اور ناپائیدار عظمتوں کی پرستش میں اس قدر مصروف ہیں کہ تمہاری فراموشی کا نوٹس لینے کی بھی شاید فرصت نہ ہو۔ تم نے اپنے لئے جو کتبہ لکھا تھا اس کی جگہ اگر کہو تو یہ نہ لکھ دیں: بھول جائے گا تہہ خاک زمانہ یارو ورنہ عنوان تھے ہم بھی کئی افسانوں کے ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Nice Sharing
Thanks for Sharing
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks