ثنائے شاہ کے اِیزاد کر کے باب نئے
نئی رُتوں میں مرتّب ہوئے نصاب نئے
ہوئی ہے خَیر سے جِن مدّتوں سے، حرف بہ دوش
ہوا کے پاس ہیں کیا کیا نہ اضطراب نئے
دعائے فصل کچھ اِس طرح سے پڑی اُلٹی
بہ کشتِ جان ہیں اُگنے لگے عذاب نئے
اِسی کے دم سے، جو سادہ دلی بہم تھی ہمیں
دل و نظر میں اُبھرنے لگے ہیں خواب نئے
ذرا سے رُت کے تغیّر پہ کیا سے کیا ماجد
کھُلے ہیں نام درختوں کے احتساب نئے
٭٭٭