جلد ہی الزام یہ اب ہر کسی پر آئے گا
اپنے ہونے سے اُسے، زندہ ہے جو، ڈر آئے گاکرگسوں سے بچ نکلنے کی خبر لائے گا وہلَوٹ کر بازار سے جو شخص بھی گھر آئے گاقحط سالی نیّتِ بد پر ہے جس کی منحصرتہمتیں سب کھیت مزدوروں پہ وہ دھر آئے گانام پر اپنے بگولے یا بھنور کی شکل میںآئے گا اب کے بھی کوئی تحفۂ شر آئے گاخوف کے ہاتھوں سِلے ہونٹوں سے بتلائے گا کیاکارزارِ جبر سے جو بھی پیمبر آئے گاسلطنت میں جو بھی رنجیدہ ہو اُس کے رنج کادوش ماجدؔ کس شہِ بد نظم کے سر آئے گا(۲۳ مارچ ۱۹۹۳ء)٭٭٭
Bookmarks