جہاں جس کی دُہائی دے رہا ہے
خدا اُس کو خدائی دے رہا ہےچُرا کر خضر کا جامہ ہمیں وہسلگتی جگ ہنسائی دے رہا ہےپڑی زد جرم کی جس پر وہ چُپ ہےجو مجرم ہے صفائی دے رہا ہےبگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کوثمر تک نارسائی دے رہا ہےوہ لاوا جو سِلے ہونٹوں کے پیچھےدہکتا ہے سُنائی دے رہا ہےوہ دے کر زر دریدہ عصمتوں کواُنہیں اُن کی کمائی دے رہا ہےتناؤ ساس کے تیور کا ماجدؔدُلہن کو منہ دِکھائی دے رہا ہے٭٭٭
Bookmarks