یوں تو اکثر یاد آتی ہے، ستانے کیلئے
کاش! اک دن وہ بھی آئیں، منانے کیلئے
آج تک! اپنے لئے تو جی لئے ، اے ہم نشیں
دیکھ لیں کچھ روز جی کر ہم زمانے کیلئے
خاک ہوکر رہ گئے حاسد کےجتنے عزم تھے
تھا بضد محسود کو اپنےمٹانے کیلئے
کیا ضروری ہے کہ میرے قتل کے اسباب ہوں
ہیں تیرے جو ر و ستم کافی مٹانے کیلئے
وہ کسی دن، اس میں خود گر جائیں گے
جو گڑھے کھو د یں گے اوروں کو گرانے کیلئے
ہر قدم رکھو سنبھل کر خود ہی ورنہ دوستو
کون آ تا ہے کسی کو بھی بچانے کیلئے
چاہتا ہوں سرخرو ہو جاؤں راہ عشق میں
جان بھی اپنی لٹا دوں تجھ کو پانے کیلئے
جب بھی جی چاہے، چلے آؤ تمہارا گھر ہے دل
ہم تعرض کیوں کریں، ا پنوں سے آنے کیلئے
د ین میں غوری حصول علم کی تاکید ہے
ورنہ کیوں ترغیب ہوتی چین جانے کیلئے
عبدالقیوم خان غوری
Bookmarks