نقش ایسے تیری یادوں کے بکھرجاتے ہیں
جیسے تقریر کے عنوان سَنور جاتے ہیں
دل تو شیشہ ہے یا شیشے سے بھی نازک تر
لوگ پتھر ہیں جو ٹکرا کے گُزر جاتے ہیں
دیکھتے ہیں جو اُسے غیر کی مَحفل میں کبھی
ہم اُداسی کے سمندر میں اُتر جاتے ہیں
دِل مِلا ہے ہمیں ایسا کہ اگر غم بھی مِلیں
اُن کو سینے سے لگائے ہوئے مَر جاتے ہیں
Bookmarks