بزمِ جاناں میں جو آداب نظر آتے ہیں
اور دنیا میں وہ کمیاب نظر آتے ہیں

زندہ ہونے کی بھلا اور شہادت کیا ہو
میری آنکھوں میں ابھی خواب نظر آتے ہیں

رنگ لایا ہے مرا پیار، وفائیں میری
وہ ملاقات کو بے تاب نظر آتے ہیں

ان کی تعبیر پہ کل ناز کرے گی دنیا
آج جو خواب فقط خواب نظر آتے ہیں

تم نہیں ہو تو اندھیرا ہے، اگرچہ سرِ بزم
کئی انجم، کئی مہتاب نظر آتے ہیں

گر پرکھیے تو خزف سے بھی وہ ارزاں نکلیں
جو بظاہر بڑے نایاب نظر آتے ہیں

اپنی تقدیر کو بے وجہ تو الزام نہ دو
اور ہی ہجر کے اسباب نظر آتے ہیں

بند آنکھوں سے یقیں جن پہ کیا تھا میں نے
بدگماں مجھ سے وہ احباب نظر آتے ہیں

بادباں تار، شکستہ ہے سفینہ بھی فصیحؔ
اور سمندر میں بھی گرداب نظر آتے ہیں

شاہین فصیحؔ ربانی​