مجھ کو چراغِ شام کی صورت جلا کے دیکھ
آ،اے اندھیری رات مجھے آزما کے دیکھ
موجیں کبھی تو ہاریں تیرے یقین سے
ساحل پہ روز اک گھروندا بنا کے دیکھ
ٹوٹی ہوئی منڈیر پہ چھوٹا سا اک چراغ
موسم سے کہہ رہا ہے، آندھی چلا کے دیکھ
ابھروں گی تیرے ماتھے پہ تقدیر بن کے میں
حرفِ غلط ، پیہم مٹا کے دیکھ
مانا کہ میں ہزار فصیلوں میں قید ہوں
لیکن کبھی خلوص سے مجھ کو بلا کے دیکھ
Bookmarks