میرے ہمسفر تیری بے رُخی دلِ مُبتلاء کی شکست ہے
اِسے کس طرح میں کہوں فتح یہ میری اناء کی شکست ہے
تو چلا گیا مُجھے چھوڑ کر میں نے پھر بھی تجھ کو صدائیں دیں
میرے ہمسفر تو رُکا نہیں یہ میری صدا کی شکست ہے
تجھے لا کے دل میں بیٹھا دیا تُجھے راز ہر اک بتا دیا
تونے پھر بھی کوئی وفا نہ کی یہ میری وفا کی شکست ہے
میں چراغِ کونہ مزاج تھا تجھے بجلیوں کی طلب رہی
مجھے آندھیوں نے بُجھا دیا یہ میری ضیاء کی شکست ہے
مجھے کوئی تجھ سے گلا نہیں تو ملا تھا کب کا بچھڑ گیا
میرے جرم کی ہے یہی سزا یہ میری سزا کی شکست ہے
میری خاموشی کے بیان کو تو سمجھ کے بھی نہ سمجھ سکا
میرے آنسوؤں کا پیام ہی دل بےنواء کی شکست ہے
غمِ داستانِ حیات کے سبھی تزکرے ہوئے رائیگاں
میرے چارہ گر تیرا یہ ہُنر میری ہر دعا کی شکست ہے
مجھے خاماشیءِ حیات میں یوں کبھی نہ کوئی گرا سکا
تیری خاموشی کی پُکار ہی میری ابتداء کی شکست ہے
Bookmarks