کہنے کو اک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا مکان کا نقشہ بدل گیا
شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آکے جو راستہ بدل گیا
قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیر کھو گئ کبھی سپنا بدل گیا
نظر کا رنگ اصل میں سایہ تھا حُسن کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا
اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئ
اُس نوء بہارِ ناز کا چہرہ بدل گیا
آنکھوں میں جتنے اشک تھے جُگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا اور میری زندگی بدل گئ
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈھتے ہیں لوگ
غالب یہ سارے شہر کا نقشہ بدل گیا
Bookmarks