ظلم کے پاؤں سے جو پھول مسل جاتے ہیں
خار بن کر وہی پتھر پہ نکل آتے ہیں
پھر بہاروں کی ضرورت نہیں رہتی ان کو
یہ خزاں میں بھی بڑی شان سے کھل جاتے ہیں
غنچے وہ ملتی نہیں ہے جنہیں آغوش کوئی
وہی مٹتے ہیں تو کیچڑ میں کنول آتے ہیں
ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں میں نہ آنکھیں ڈالو
ان میں طوفان ہیں چھیڑے سے مچل جاتے ہیں
وہ جو کل رونق فانوس تھی ایوان کے لیے
آج اس شمع سے ایوان دہل جاتے ہیں
دھوپ تھی تیز تو سائے بھی تھے پیڑوں کے تلے
اس کے ڈھلتے ہی رخ ان کے بھی بدل جاتے ہیں
ہم نے سمجھا ہے زمانے کو بڑی دیر کے بعد
یہ وہ خنجر ہیں جو اپنوں پہ بھی چل جاتے ہیں
ہم کو آتا نہیں زخموں کی نمائش کرنا
خود ہی روتے ہیں، تڑپتے ہیں، بہل جاتے ہیں
جو سمجھتے ہیں حوادث کو وہ کھلونے کی طرح
ان سے طوفان بھی بچ بچ کے نکل جاتے ہیں
عزم والے ابھی ہمت نہیں ہارا کرتے
اشک عذراؔ کے یہ کہہ کہہ کے سنبھل جاتے ہیں
عذرا عادل رشید
Bookmarks