اسی درد آشنا دل کی طرفداری میں رہتے ہیں
ہم اپنے آپ میں گم اپنی غمخواری میں رہتے ہیں

یونہی ہم رفتہ رفتہ دل گرفتہ ہوتے جائیں گے
کہ ہم اپنے غموں کی ناز برداری میں رہتے ہیں ​

یہ دنیا، ہم نے دنیادار کی آنکھوں سے دیکھی ہے
مگر اے دل! ہم اپنی ہی عملداری میں رہتے ہیں

ہمارے سکھ بہت کم ہیں اور دکھ اس سے بھی کم ہیں
سو ہم بھی آج کل ان کی نگہ داری میں رہتے ہیں

ابھی اہلِ ہوس دنیا میں کیا کیا گل کھلائیں گے
ابھی اہل جنوں خواب جہاں داری میں رہتے ہیں

مہتاب حیدر نقوی​