مجاہد ملت قاضی حسین احمد



حافظ محمدا دریس

آج تین سال ہوچکے کہ وہ شخص ہم سے بچھڑ گیا، جس کے دل میں ہر ایک کے لیے محبت و اخلاص اور غلبۂ حق کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ 5 اور 6 جنوری2013ء کی درمیانی شب تھی،جب برادرم عبدالودود خان نے نہایت غمگین اور گلوگیر لہجے میں قاضی صاحب کی رحلت کی انتہائی اندوہناک خبر سنائی۔ دل کہتا تھا کہ کاش آج موت کو موت آجاتی مگر نہیں، بے چاری موت اور فرشتۂ اجل سب اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ قاضی صاحب زمانہ طالب علمی میںاسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوئے، خاندان کا ماحول دیوبندی اور جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے متصادم نہیں ،تو اختلافی ضرور تھا۔ قاضی صاحب کے دو بڑے بھائی عطاء الرحمان اور ڈاکٹر عتیق الرحمان بھی جمعیت کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کے بزرگوں کی وسعتِ ظرفی تھی کہ عمومی طور پر علمائے دیوبند کے برعکس انھوں نے اپنے ہونہار سپوتوں کے اس راستے پر چلنے کی مزاحمت نہیں کی۔ قاضی صاحب عملی زندگی میں داخل ہوئے تو فوراً جماعت کے کارکن بنے،پھر1970ء میں جماعت کے رکن بن گئے۔ زمانۂ طالب علمی میں اپنے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمان کے پاس لاہور آیا کرتے تھے، جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ،لاہور میں زیر تعلیم اور کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیرتھے۔ اسی عرصے میں مرکز جماعت اچھرہ میں مولانا مودودیؒ سے ان کی براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں اور مولانا کی شخصیت کو دیکھتے ہی وہ اُن کے گرویدہ ہوگئے۔ کون جانتا تھا کہ صوبہ سرحد کا ایک عام سا طالب علم اور دیوبندی علماء کا سپوت مولانا کی اس تحریک کا بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوگا، نہ صرف اس کی اگلی صفوں میں کام کرے گا بلکہ مولانا کی جانشینی اور جماعت کی قیادت کی ذمہ داری بھی اللہ اس سے لے گا۔ اس میدان میں اللہ کا یہ بندہ امارت وقیادت کے مقام پر فائز ہوا تو سید مودودیؒ کی طرح سر سے کفن باندھ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پیچھے کی طرف دیکھنے کی بجائے آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ سیّد نے جو نقوشِ پا چھوڑے تھے وہ تو قیامت تک آنے والے قافلوں کے لیے جرأت و حوصلے کا سامان پیدا کرتے رہیںگے۔ قاضی صاحب نے بھی ان نقوشِ پا پر چل کے دکھایا اور ہر آمر کو للکارتے رہے۔ ان کی جدوجہد کا سارا زمانہ معترف ہے، دوست بھی اور دشمن بھی: مثلِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی! قاضی صاحب، سید مودودیؒ کے پیروکار اور علامہ اقبالؒ کے مدّاح و فداکار تھے۔ انھیں کلامِ اقبالؒ، اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں، یوں مستحضر تھا کہ بسا اوقات احساس ہونے لگتا جیسے پورا کلام انھیں ازبر ہے۔ وہ کئی بار خود فرماتے کہ لوگ مبالغہ کرتے ہوئے انھیں کلام اقبالؒ کا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ ہم ان کا یہ تبصرہ سن کر کہا کرتے تھے کہ اس میں کوئی مبالغہ تو نظر نہیںآتا۔ آپ جس موضوع پر گفتگو کریں خواہ تقریر ہو یا انٹرویو، آپ کا خطبہ ہو یا کوئی مضمون، ڈرائنگ روم میں گپ شپ ہو یا کوئی پریس کانفرنس کلامِ اقبالؒ اس میں پھولوں کی طرح مہکتا اور موتیوں کی طرح چمکتا ہے۔ میں تو کلامِ اقبالؒ کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ علامہ کے بے شمار اشعار قاضی صاحب پر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کلام اقبال کا بیشتر حصہ آفاقی اور عالمگیر حقیقتوں پر مشتمل ہے، مگر ان کے اشعار کے مطابق جب بھی اور جو بھی اپنے آپ کو جس قدر ڈھال لے گا یہ اشعار اس کا لباس اور اوڑھنا بچھونا بن جائیں گے۔ قاضی صاحب ایسی ہی شخصیات میں سے ایک انقلابی شخصیت تھے۔ یوں سمجھیے کہ وہ اقبالؒ کے شاہین تھے۔ راقم الحروف کو قاضی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا براہ راست طویل موقع نصیب ہوا۔ یہ عرصہ ستائیس سال پر محیط ہے۔ اُن کو سفر و حضر میں، امن وحرب میں، اندرونی و بیرونی محاذوں پر، آسائش وراحت اور ابتلا وآزمائش میں، ہر جگہ دیکھنے اور پرکھنے کے مواقع ملتے رہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ان کا تصور آتا ہے ،تو وہ اس شعر کا مصداق نظر آتے ہیں: نگہ بلند، سخن دلنواز ، جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر، میرِ کارواں کے لیے ٭…٭…٭