شہادت کی خوشبو



سنیا گیلانی
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی مدتِ حیات پوری کرکے فانی ہوجاتے ہیں مگر کچھ لوگ دل پر ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں جنہیں بُھولنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتا ہے۔ ایسے نقوش اُنہی لوگوں کے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی عوام پرنچھاور کرکے ان کے دلوںپر راج کرتے ہیں اُنہی محدود چند ہستیوں میںپاکستان کی مشہور زمانہ بھٹو فیملی کی ایک بہادر اور نڈر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کا نام نمایاں ہے جن کا قتل کوئی معمولی قتل نہ تھا۔وہ دن دہاڑے ہزاروں افراد کی آنکھوں کے سامنے شہید کردی گئیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے خاندان کے اکثر افراد کو قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پرچلنے اور ملک وقوم کی خدمت کی خاطر عوامی رہنمائی سے روکنے کیلئے مختلف طریقوں سے موت کی نیند سُلادیاگیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مسلم دنیاکی اولین خاتون تھیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ شہید محترمہ بے نظیر ایک ایسے چمکتے دھمکتے چاندکی مانند تھیں جو اندھیرے میں روشنی فراہم کرتا ہے ایسے ہی محترمہ بے نظیر شہید بھوک وافلاس اور دہشتگردی کے جھرمٹ میںگھرِی عوام کیلئے آشتی اور اُمید کا وہ روشن مینار تھیں جس کا مقصدِ زندگی ہی لوگوںکی زندگیوں کو خوشیوں اور راحتوںسے بھرنا تھا۔ آج بھی محترمہ بے نظیر بھٹوشہید کے جیالے ان کی ملک و قوم کیلئے کی گئی کاوشوں اور خدمات کی وجہ سے انکے نام پر اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ایسی عظیم خاتون تھیں جنہوں نے عوام الناس کی خوشیوں اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے معصوم بچوں کو تو مسکین کردیا لیکن ملک وقوم کی غریب عوام کی خدمت سے منہ نہ موڑا۔ ایسی عظیم شخصیات صدیوں میں پیدا ہو تی ہیں جو غریب عوام کیلئے جیتی اور مرتی ہیںورنہ زمانے میں بڑھتی لالچ وحرِض خواہ عوام میں ہو یا حکمرانوں میں ، انسان کو برُائیوں کی دلدل میں پہنچا کر صرف انفرادیت کے احساس میں ڈال دیتی ہے جس سے انسان میں صرف ’’میں‘‘کا عنصرغالب ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی قتلوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ روالپنڈی کے لیاقت باغ میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خاں کو شہید کر دیا گیااور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بھیانک واردات اپنے تمام تر کرداروں سمیت تحلیل ہو گئی۔ پھر اسی لیاقت باغ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کر دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے چندہ ماہ بعد ان کی اپنی پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت کا اولین فرض تو یہ تھا کہ وہ اس بھیانک قتل کا سراغ لگانے کیلئے دن رات ایک کر دیتی۔ محترمہ کے قاتلوں کو زمین کی تہہ سے نکال لاتی۔ بات رسوائی کے ہے لیکن سچ یہی ہے کہ بے نظیر کے قتل کی تحقیقات اس حکومت کی اولین ترجیح نہ بن سکی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ ممکن ہے سابق صدر آصف علی زرداری نے مفاہمت کی جس سیاست کو اپنے اقتدار کی استواری کا محوری نکتہ بنایا اُسکی مصلحتیں اجازت نہ دیتی ہوںکہ وہ محترمہ بے نظیر شہید کے قاتلوں تک پہنچیں اور کوئی ایسی آگ سُلگ اُٹھے جو ان کے تخت اقتدار کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں۔ کیا 27دسمبر 2007کو بر پا ہونے والی قیامت کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا حالانکہ یہ ڈر عیاں تھا کہ محترمہ شہید وطن واپس آئیں گی تو ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن محترمہ بے نظیر شہید کویہ بھی یقین تھا کہ اگر وہ اپنے وطن واپس نہ آئیں تو جمہوریت کا سورج کبھی طلوع نہیں ہو گا اور ملک کے غریب عوام ایک آمر کے ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے انسانی حقوق کی پامالی اور ملکی وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے گی۔ محترمہ یقینا اس لیے وطن لوٹی تھیں کہ انکے وطن کو ایک عظیم قربانی کی ضرورت ہے۔18اکتوبر کو جب کراچی میں عوام کا سمندر اُمڈآیا تو آمرانہ قوتوں سے برداشت نہ ہوا اُنھوں نے اُسی دن منصوبہ کے تحت محترمہ کی جان لینے کی کوشش کی مگر بم دھماکوں میں محترمہ بے نظیر شہید ہونے سے تو بچ گئیں لیکن دو سو سے زائد جمہوریت کے پروانوں کی لاشیں، آنسوئوں ، سسکیوں اور آہوں کے ساتھ اُٹھانا پڑیں۔ 18اکتوبر سانحہ کار ساز میں محترمہ بے نظیر بھٹوکی جرات وبہادری اور قائدعوام کی اعلی تربیت کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔جب کراچی میں یہ حادثہ پیش آیا تو محترمہ بے نظیر جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ٹرک پر سوار تھیں کہ اسی دوران زور دار دھماکے یکے بعدد یگر ے ہوئے اس سانحے میں پارٹی کے سیکڑوں کارکن شہید ہو گئے اور ہزاروں زخمی ہو ئے۔محترمہ بے نظیر شہید کی جگہ کوئی اور ہوتا تو خوف زدہ ہو کر بیرون ملک چلاجاتا یا خود گھر میں بیٹھ جاتا مگر یہ بے نظیر شہید ہی تھیں جنہوں نے ڈٹ کر مشکلات کا سامنا کیا۔ محترمہ بے نظیر شہید کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں نہ صرف زخمیوں کی عیادت کیلئے تشریف لے گئیںبلکہ شہداکی تعزیت کرنے ان کے گھروں میں بھی گئیں۔ محترمہ بے نظیر شہیددنیا میں داخلی تصادم اور خونریزلڑائیوں میں ملوث فریقین کے درمیان بھی مفاہمت چاہتی تھیں۔ محترمہ شہید کا یہ کہنا درست تھا کہ مغرب اور عالم اسلام کی جنگ میں اتنے لوگ نہیں مرئے جتنے مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں میں مرے ہیں۔ محترمہ بے نظیر شہیدکا ایک اور کارنامہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کے کمزور طبقات اور گروہوںکو طاقت ور اور بااختیار بنانے کی بھی پالیسی دی تاکہ پاکستانی معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ ہو اور ایک باوقار حیثیت سے لوگ اپنے وطن اور اپنے بنیادی حقوق کا دفاع کرسکیں یہی وجہ تھی کہ پی پی پی حکومت نے خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انکی فلاح و ترقی کیلئے مواقع پیدا کرنے ، مزدورں، محنت کشوں اور کسانوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کیلئے خصوصی پالیسیاں بنائیں۔ محترمہ بے نظیر شہید کا خون رنگ لائے گا۔ انکا یہ خواب ضرور پورا ہوگا کہ پاکستان میںایک پر امن ، روادار ا اور اسلامی جمہوری معاشرہ قائم ہو اور دنیا میں رہنے کیلئے پاکستان ایک بہترین جگہ ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہادت کی خوشبو پاکر اس دنیا سے تو رخصت ہو گئیں، لیکن جو چہرے اُن کو دیکھ کر کھلتے تھے وہ ہمیشہ کیلئے مرجھا گئے جو آنکھیں ان کو دیکھ کر چمکتی تھیں وہ ہمیشہ کیلئے بجھ گئیں۔خدا ان پر اپنی رحمتیں نچھاور کرئے (آمین