بھٹو نے ہمیشہ تماشائیوں کے سامنے ناٹک رچا کر اپنی سیاسی قدر و قیمت بڑھائی اور اس طرح اپنا مجموعی تاثر خود بڑھایا۔ اس نے عوامی پلیٹ فارم پر مسلسل موجود رہ کر یہ مقام حاصل کیا۔کسی دفتر میں بیٹھ کر نظم و نسق چلانے کے لئے ہدایات جاری نہیں کیں۔ وہ ملک کا بہترین خوش گفتار اور با صلاحیت مقرر تھا۔ اس خوبی کے باعث اس نے سرحد اور بلوچستان میں حزب اختلاف پر سایہ فگن ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ 6مارچ کے سمجھوتے کے باوجود اور قومی سیاسی اتحاد کی ضرورت کے پیش نظر اپنے الیکشن کے وعدوں کو تیزی سے عملی جامہ پہنانے کے لئے اس نے دوسرے نا پسندیدہ طریقوں سے کام لینا شروع کر دیا۔ اس نے حقیقت حال کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہ کی کہ وقت کی ضروت یہ نہیں تھی کہ سیاسی شعبدہ بازی سے کام چلایا جائے بلکہ بحران پر قابو پانے کیلئے چھوٹے چھوٹے ڈھیروں پرزوں کو جوڑ کر کام پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ نظم ونسق اور سیاست کو گڈمڈ کر کے وہ بہت بڑی غلطی کر رہا تھا، ایک ایسا رجحان جس پر اس نے تندہی سے عمل کیا جب تک وہ اقتدار میں رہا۔ صرف بھٹو جیسا انتہائی ذہین شخص، بغیر کسی تاخیر کے ہماری سوسائٹی کے دو اہم حصہ داروں یعنی تاجروں اور نوکر شاہی کو اقتدار سے الگ کر سکتا تھا، جو اس کے الیکشن کے وعدوں کو کسی حد تک پورا کرنے کی خاطر اس کے لئے حد درجہ مفید ثابت ہو سکتے تھے۔ یہ ظاہر تھا کہ ان دو جماعتوں کی چھانٹی کرنے کی خاطر اس کے پاس پہلے ہی سے منصوبے تشکیل دیے ہوئے تھے۔ نتیجے کے طور پر عنان حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد تین ممتاز تاجروں کو کسی ضابطے کے بغیر، لیکن ذاتی رقابت کے باعث قید کرایا گیا تھا ۔ ان کے ذہنوں کو مزید پریشانی سے نجات دلانے کے لئے بھٹو نے جلدی سے دس مختلف درجے کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ مارچ میں ایک ہزار سے زیادہ سول ملازمین کو برخاست کرنے کی ابتداء ہوئی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے مارشل لا ء کی طاقت کا استعمال کیا تھا۔ کچھ حکام جائز وجوہات کی بنا پر ریٹائر کئے گئے تھے جبکہ بیشتر کو سرکاری حیثیت میں اپنی معمول کی ڈیوٹی ادا کرنے کے دوران اس کے ساتھ بدسلوکی کے باعث ریٹائر کیا گیا تھا، جو حکام مکمل طور پر اپنی اچھی قسمت کے باعث بغیر کوئی نقصان پہنچائے چھوڑ دیے گئے تھے، وہ بھی اپنے معمول کے فرائض کی ادائیگی میں بہت زیادہ خوف کی وجہ مفلوج ہو گئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھٹو اسے کہیں گستاخی سمجھ لے۔ اس لئے نظم و نسق اس کے ابتدائی دنوں میں چکی کے پاٹوں کی طرح رک گیا کیونکہ کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہا تھا۔ مزید برآں انہیں معلوم نہ تھا کہ ان سے کیا کام لیا جانا تھا جس کے لئے انہیں ابلتے ہوئے پانی کی طرح جوش کا اظہار کرنا چاہیے تھا جب کہ ان میں سے بعض وہ تھے جنہیں یحییٰ خان کے سابقہ مارشل لاء کے دوران یک طرفہ فیصلے سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ 1967ء میں جب بھٹو نے اپنی پیپلز پارٹی کو تشکیل دینا شروع کیا، تو چند قابل احترام سیاست دانوں نے اس کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ باقی دوسرے مختلف قماش کے افراد کا مجمع تھا، سیاسی لٹیروں کا ایک انبار تھا جنہیں کوئی اور پارٹی قبول نہیں کرتی تھی، وہ سب بھٹو کی سیاسی مہم کی گاڑی میں چھلانگ لگا کر سوار ہو گئے،اس لئے نہیں کہ ان کے سیاسی تصورات اس سے مطابقت رکھتے تھے یا یہ کہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اس کی پارٹی کا کیا مقصد تھا،لیکن چونکہ پارٹی کا لیڈر قوت عمل رکھنے والا شخص تھا اور اس کے پاس قومی سیاست کے اسٹیج پر افراتفری پھیلانے کے مواقع روشن تھے اور قلابازی کھانے والی ان کی فطری صلاحیتیں مددگار ثابت ہو سکتی تھیں۔ انہوں نے امید کی کہ اگر بھٹو کامیاب ہو گیا تو فوائد حاصل ہو جائیں گے، اگر نہ ہوا تو پھر بھی ان کا کوئی نقصان نہ تھا۔ بھٹو ان کے مشکوک ماضی سے کافی با خبر تھا حتیٰ کہ ان کی خواہشات کے بارے میں بھی۔ ابتداء میں بھٹو کا کٹھن اور دوہرا ٹاسک تھا یعنی اپنی پارٹی کو منظم کرنا اور ان مہم جوئوں کو باندھ کر پیچھے رکھنا۔ اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ پہلے آخر الذ کر مسئلے کو سلجھانے کے لیے اسے کیا اقدام اٹھانے تھے اور اس کی پارٹی کیا شکل اختیار کرے گی۔ ان کی طرف اس نے آمرانہ رویہ اختیار کیا اور جب اس نے معلوم کر لیا کہ انہوں نے اس کی بات بغیر کسی پس و پیش کے مان لی ہے، تو اس نے ان پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا۔ ان کی صحیح قدر و قیمت جانچنے کے بعد اس نے اپنے جابرانہ رجحانات،جو خاص طور پر ڈرانے دھمکانے کے لئے شاطرانہ حکمت عملی کا درجہ رکھتے تھے، انہیں خدمت انجام دینے والے پیغام رسانوں اور پروپیگنڈا ایجنٹوں کے ذریعے پھیلانے کا کام لیا۔ بعد ازاں، جب وہ منتخب ہوا، تو اس کی نخوت میں مزید اضافہ ہو گیا، جو کہ صرف اس کی پارٹی تک محدود نہ تھی۔ اس انوکھے طرز عمل نے اس کے مشکوک رول پر پردہ ڈالنے میں مدد کی جو اس نے1971ء میں سیاسی ڈیڈلاک پیداکرنے میں ادا کیا تھا۔ جمہوریت کے لئے اس کی عقیدت قطعاً دکھاوا تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک جابر تھا اور حیلوں ، بہانوں اور دھمکیوں سے کینہ پروری کو فر وغ دیتا تھا وہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے آرٹ کا ایک ماہر تھا۔ رو سٹرم پر مسلسل دھپ دھپ کرنے اور بار بار لفظوں کے دوہرانے کا عمل ہٹلر کی یاد دلاتا تھا، جس کے عوامی خطاب سوچ سمجھ سے ترتیب دیے گئے ڈرامے ہوتے تھے اور جس میں سامعین سٹار اداکار اور تماشائی دونوں کا کردار ادا کرتے تھے۔ بھٹو کے یہ انداز ہٹلر کی ہو بہو تقل تھے۔ دراصل اس نے ہٹلر کے طریقوں کو ذرا بہتر بنایا تھا۔ اس میں اس نے پبلک کو یقین دلایا کہ وہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرے گا۔ عمل میں معاملات مختلف تھے۔ جب اس نے مذکورہ صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا اور سینکڑوں سول ملازمین کو برخاست کر دیا، تو اس نے ان کی پہلے اجازت حاصل نہ کی، مگر یہ بتا کر کہ اس نے کیا کر دیا تھا اس کی بعد از وقوع منظوری طلب کی تو تب بھی خوشی کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی،جس نے بھٹو کی خود نمائی کو حد درجہ بڑھایا ۔ اس کے فسطائی انداز کے ارادے زیادہ دیر تک مخفی نہ رہے۔ ایک مرتبہ،جب میں کمانڈر انچیف تھا، میں نے اسے بتایا تھا کہ میں نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی کہ موجودہ یونیفارم کو بہتر بنانے کا جائزہ لیا جائے۔ اس نے اچانک دلچسپی ظاہر کی اور مجھے کہا کہ پرانی نازی آرمی (جرمنی- دوسری جنگ عظیم سے قبل اور دوران) رواج کے مطابق گریٹ کوٹ(Great Coat) کے کالروں کو سرخ رنگ کی ریشمی مخمل سے سجایا جائے۔ اس نے یہ معلوم کرنے کی تکلیف گوارہ نہ کی تھی کہ گریٹ کوٹ اپنی افادیت کھو چکے تھے اور فوجی وردی کا حصہ نہ تھے۔ فیڈرل سیکورٹی فورس کو وجود میں لانے کا تصور، جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ہٹلر کی نازی پارٹی کے گھڑ سوار طوفانی دستے (Storm Troopers) سے مختلف نہ تھا۔ جو خوفزدہ کرنے والی پرائیویٹ ملیشیا کے پیش روئوں کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔ پولیس یا انٹیلی جنس کی طرف سے آفیسروں کے بارے میں خفیہ رپورٹوں کی فائلیں شروع کرنے کی اس کی رائے حد درجہ قابل اعتراض تھی جو میں نے اپنی تمام سروس کے دوران کبھی نہ سنی تھی۔ یہ ہملر(Himmler) کی خفیہ ایجنسی کا یہودیوں کے بارے میں ریکارڈ رکھنے کے مترادف تھا۔ ان تمام گمراہ کن اسکیموں کے ساتھ بھٹو نے ہر ایک کو خوفزدہ کرنے کے لئے غیر یقینی فضا پیدا کرنی چاہی تا کہ کوئی بھی اپنے درست ہوش و حواس میں اس کے مخصوص صوابدیدی انداز حکومت پر سوال نہ کر سکے۔ (خودنوشت ’’آخری کمانڈر انچیف‘‘ سے اقتباس