CaLmInG MeLoDy (11-24-2015)
شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھےابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیاابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھےتمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالیکلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھےتمام عمر وفا کے گنہگار رہےیہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھےشبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دیپہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھےوہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیارجو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھےنئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میںہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھےیہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میںپرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھےندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھیکہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے
CaLmInG MeLoDy (11-24-2015)
Sir g. Ek baat bataaiye. Kia ye apki poetry hai
MashaAllah . Bohot umda
thanks
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
thanks pasnd karne ke liy
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks