بسم اللہ الرحمن الرحیم
شرعی میراث
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔
{صحیح بخاری :6732 ، الفرائض - صحیح مسلم :1615 ، الفرائض }
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : میراث کے مقررہ حصے ان کے حصہ دار وں کے حوالے کردو ، پھر جو باقی بچے وہ میت کے سب سے قریبی مرد رشتہ دار کا ہے ۔
{ صحیح بخاری ، صحیح مسلم } ۔
قرآن مجید میں ورثہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :
[۱] وہ لوگ جن کا حصہ مقرر ہے ۔انہیں اصحاب الفروض کہتے ہیں ،قرآن میں جو حصے مقرر ہیں وہ کل چھ ہیں :
آدھا : یہ حصہ شوہر کا ہے بشرط یہ کہ میت کی اولاد نہ ہو ، یا اگر میت کی نرینہ اولاد نہیں ہے اور صرف ایک بیٹی ہے تو اس کا حصہ آدھا ہے ۔
چوتھائی : میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں یہ بیوی کا حصہ ہے ، نیز میت کی اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کا حصہ بھی یہی ہے ۔
آٹھواں : اگر میت اپنے پیچھے اولاد کو چھوڑ کر جارہا ہے تو اس کی بیوی کا آٹھواں ہے ۔
چھٹا : میت کے والدین کا ترکہ میں سے ہر ایک کا حصہ چھٹا ہے بشرط یہ کہ میت اپنے پیچھے اولاد اور بھائی بہن چھوڑ کر جارہا ہے ، اور اگر میت کی نہ اولاد اور نہ ہی اس کے بھائی بہن ہیں تو والدہ کا حصہ ایک تہائی ہے ۔
تہائی : یہ حصہ بعض صورتوں میں والدہ کا ہے جیسا کہ گزرا ، اور اخیافی بھائی بہنوں کا ہےبشرطیکہ وہ دو یا اس سے زیادہ ہوں ۔
دوتہائی : یہ حصہ بیٹی کا ہے بشرطیکہ وہ دو یا اس سے زیادہ ہوں یا پھر پوتیوں اور بہنوں وغیرہ ہے ۔
[۲] وہ لوگ جن کا حصہ مقرر نہیں ہے ، البتہ مقرر حصہ تقسیم کرنے کے بعد جو بچے گا وہ سب انکا ہے ، انہیں عصبہ کہا جاتا ہے ۔
[۳] دیگر رشتہ دار ، انہیں اولو الارحام کہا جاتا ہے ، جیسے ماموں ، نانا ، بھانجا وغیرہ ۔
تجہیز و تکفین کا خرچ ، قرض اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد میت کا ترکہ اس اعتبار سے تقسیمہوگا کہ پہلے اصحاب فروض کا حصہ دیا جائے گا ، پھر جو بچتا ہے وہ عصبہ میں تقسیم ہوگا اور اگر عصبہ نہ ہوں گے تو مال دیگر رشتہ داروں کو دیا جائے گا ۔
زیر بحث حدیث میں اسی چیز کو واضح کیا گیا ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
[۱] جن کا حصہ مقرر ہے ان کا حصہ انہیں دے دو یعنی مال خواہ تھوڑا ہے یا زیادہ ، جائداد کی شکل میں ہے یا نقد کی شکل میں ہر صورت میں حصہ دار کا حصہ ضرور ملنا چاہئے ، ارشاد باری تعالی ہے : لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (7) النساء۔ مردوں کے لئے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین یا قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لئے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو ، ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے ، گویا ماں کو چھٹا حصہ یا تیسرا حصہ ، باپ کا چھٹا حصہ ، شوہر کا آدھا یا چوتھائی اور بیوی کا چوتھائی یا آٹھواں وغیرہ ضرور ملنا ہے ، یہ اللہ تعالی کا مقرر کردہ فریضہ ہے جس میں تبدیلی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔
[۲] نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : پھر جو باقی بچا وہ میت کے سب سے قریبی مرد رشتہ دار کا ہے ، شریعت کے اصطلاح میں انہیں عصبہ سے تعبیر کیا گیا ہے ، عصبہ کہتے ہیں ان مردوں کو جن کا تعلق میت سے بلا کسی عورت کے واسطے سے ہے جیسے : بیٹا ، باپ ، پوتا اور دادا اور بھائی وغیرہ ، اسی طرح بسا اوقات عصبہ میں وہ عورتیں بھی آجاتی ہیں جو مرد کی وجہ سے عصبہ بنتی ہیں جیسے بیٹے کے ساتھ بیٹی وغیرہ ، ان کے بارے میں شرعی حکم یہ ہےکہ اصحاب الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گا یہ باہمی طور پر تقسیم کریں گے ، مثال کے طور پر ایک شخص کا انتقال ہوتا ہے اور وہ اپنے پیچھے ، والد ، والدہ ، بیٹا ، دو بیٹی اور بیوی چھوڑ کا مرتا ہے تو ماں کا چھٹا حصہ ، باپ کا چھٹا حصہ ، بیوی کو آٹھواں حصہ ،یہ تینوں اصحاب الفروض ہیں لہذا ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ مال تین برابر حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا ، دو حصہ لڑکے کا اور ایک ایک حصہ دو بیٹیوں کا ۔
[۳] نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو قریب کے عصبہ ہیں وہ دور کے عصبہ کو محروم کردیں گے یعنی باپ کی موجودگی میں دادا چچا اور بھائی محروم رہیں گے ، بیٹے کی موجودگی میں پوتا محروم رہے گا وغیرہ ۔
[۴] نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی صاحب فرض بھی ہے اورعصبہ بھی ہے تو اسے اس کا حصہ فرض سے بھی ملے گا اور اگر بچتا ہے تو عصبہ کی حیثیت سے بھی وہ لے گا،جیسے ایک شخص کا انتقال ہوتا ہے اور اپنے پیچھے باپ اور دو بیٹیوں کو چھوڑتا ہے تو ایسی حالت میں فرض حصہ کے طور پر بیٹیوں کا دو تہائی ہے اور باپ کا حصہ 1/6 ہے اور ابھی ایک حصہ باقی ہے یعنی جو باپ کو عصبہ کے طور پر ملے گا اور اگر میت کا باپ بھی نہ ہوگا بیوی اور بیٹیوں کو دینے کے بعد باقی مال بالترتیب بھائی یا چچاکو ملے گا۔
[۵] اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن ورثہ کا حصہ مقرر ہے اگر ان کا حصہ دینے کے بعدمال ختم ہوجاتا ہے تو عصبہ محروم ہوں گے جیسے ایک عورت کا انتقال ہوتا ہے اور وہ اپنے پیچھے شوہر دو بہنیں اور ایک بھتیجہ چھوڑتی ہے تو اس صورت میں شوہر کو آدھا اور دونوں بہنوں کا دو تہائی دینے کے بعد کچھ باقی نہیں بچتا لہذا بھتیجہ عصبہ ہے وہ محروم ہوگا ۔
[۶] اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی میت کے اصحاب فروض میں سے کوئی نہیں ہے تو اس کا سارا مال عصبہ کو ملے گا جیسے کوئی شخص اپنے پیچھے صرف بیٹا اور بیٹیاں چھوڑ تاہے تو ترکہ انہیں میں تقسیم ہوگا ، یا کسی شخص کا انتقال ہوتا ہے اور اس کے وارث صرف اس کا بھائی ہے تو سارا مال بھائی کو مل جائے گا ۔
فوائد :
1) میراث کی تقسیم اللہ تعالی کا فریضہ ہے ، اس میں رد و بدل قطعا جائز نہیں ہے ۔
2) میراث میں سب سے پہلے ان کا حصہ دیا جائے گا جن کا قرآن و حدیث میں متعین ہے ۔
3) ترکہ خواہ کم ہو یا زیادہ میت پر جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کے بعد ہی ترکہ تقسیم ہوگا ، اگر حقوق کی روانگی کے بعد کچھ نہیں بچتا تو ورنہ محروم ہوں گے ۔
ختم شدہ
Similar Threads:
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks