پھر جب میں نے اپنے آپ کو گناہوں کے خول میں قید پایا میرا دل گبھرانے لگا ذہن تاریکیوں میں ڈوبنے لگا دل اور دماغ کی طویل جنگ جن کی جھڑپوں میں کبھی دل غالب ہوجاتا اور کبھی دماغ.. پر دونوں کے زخمی ہونے سے اذیت میری تھی پر مجھے معلوم نہیں تھا کس کا ساتھ دوں کسے مرنے دوں یا انکی صلاح کیسے کروائوں؟
پھر اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو رسوا پایا
وہ مجھے بتارہا تھا میں نے ہی سن کر غور نا کیا
اس تاریک خول میں رحمانیت کی ننھی سی کرن ضرور تھی جو مسلسل رہنمائی کررہی تھی اور جب میرا دل مایوسیوں میں ڈوبنے لگا جب ضمیر غالب ہوا جھوٹی دلیلوں کو شکست ہوئی میں اپنی نظروں سے ہی اٹھ نا پارہی تھی تو اسکی رحمانیت تیزی سے گرتے وجود کو سنبھالنے آگے بڑی آواز آئی
کیا تو رحمان کی بندی نہیں جو تیرا انتظار کر رہا کہ تجھے لوٹ کے آنا ہی تھا اپنی خواہشات میں تھک کر آخر میرے پاس لوٹنا تو ہے ہر گناہ کے بعد اس زندگی کے بعد...
کیا تجھے اسکے معاف کردینے اسکے مہربان ہونے پہ شک ہے؟
کیا تیرے ہر بار پکارنے پہ اس نے تجھے جواب نہیں دیا؟
کیا تیری نافرمانیوں پہ رزق دینا تجھ سے محبت کرنا چھوڑا؟
تو بت پرست تو نہیں کہ تیرا خدا تیرے لیے کچھ کرنے سے معذور ہو نا تو ملحد ہے کہ کوئی پادری کہے کہ اب گناہوں پہ معافی ممکن نہیں
تو تو اس ""
نہایت مہربان
" " کی بندی ہے جو ہر بار خطا پہ کہتا ہے "لاتقنطو من رحمت اللہ " جو بار بار کہتا ہے "ان اللہ غفور الرحیم "
جو کہتا ہے اپنے گناہوں سے مایوس نا ہو مجھے توبہ کرنے والے بے حد پسند ہیں
Similar Threads:
Bookmarks