SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 2 of 2 FirstFirst 12
    Results 11 to 12 of 12

    Thread: 18 Zil Hajj -Shahadat Hazrat Usman-e-Gani Radi Allahu Anhu

    1. #1
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      973
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      242

      18 Zil Hajj -Shahadat Hazrat Usman-e-Gani Radi Allahu Anhu

      سوانح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ

      مکمل نام : عثمان بن عفان

      والد : عفان بن ابو العاص
      والد : ارویٰ بنت کریز
      مقام پیدائش : طائف، عرب
      وفات : بروز جمعہ ١٨ ذُوالحِجَّۃِ الْحرام ٣٥ سنِ ہجری- ١٧ جولائی ٦٥٦ء
      عمر : ٨٢ برس
      مقام تدفین : جنت البقیع، مدینہ منورہ

      حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے۔ عام فیل کے چھ برس بعد۵۷۶ء میں مکہ میں پیدا ہوئے والد کا نام عفان،دادا کا ابو العاص ، اورپڑدادا کا امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا۔پانچویں پشت عبدمناف پر ان کا نسب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔آپ کا شجرۂ مبارکہ یہ ہے،محمد بن عبد اﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ۔حضرت عثمان کی والدہ اروی بنت کریز کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، نانی ام حکم بیضا بنت عبدالمطلب آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں۔

      حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کُنْیَت ’’ابو عَمْرو‘‘ اور لقب جامع القراٰن ہے نیز ایک لقب ’’ذُوالنُّورَین‘‘(دو نور والے) بھی ہے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کي دو صاحبزادیاں یکےبا دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں یہ وہ واحد اعزاز ہے جو کسی اور حاصل نہ ھو سکا.آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیاجاتا ہے یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ ہی جنت کی بشارت دی تھی. آپ فیاض دلی سے دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے۔ اسی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔

      آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آغازِ اسلام ہی میں قَبولِ اسلام کر لیا تھا،آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ’’صاحِبُ الْھِجْرَتَیْن‘‘(یعنی دو ہجرتوں والے) کہا جاتا ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف ہجرت فرمائی۔

      خلافت
      حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابی شامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی زمہ داریاں سرانجام دیں۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔



      دو بار جنَّت خریدی
      امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شانِ والا بَہُت بُلند وبالا ہے،آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی مبارَک زندگی میں نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت، مالِکِ جنّت ، تاجدارِ نُبُوَّت،شَہَنْشاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دو مرتبہ جنّت خریدی، ایک مرتبہ ’’بیرِرُومہ‘‘ یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے وَقْف کر کے اور دُوسری بار ’’جَیْشِ عُسْرَت‘‘ کے موقع پر ۔چُنانچِہ’’ سُنَنِ تِرمِذی‘‘ میں ہے:حضرتِ سیِّدُنا عبدُالرحمن بن خَبّاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ میں بارگا ہِ نَبَوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام میں حاضِر تھا اور حُضورِ اکرم ، نورِمُجَسَّم ،رسولِ محترم، رَحْمتِ عالَم ، شاہِ بنی آدم ، نبیِّ مُحْتَشَم،سراپا جُودو کرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الرِّضْوَان کو ’’جَیشِ عُسْرَت ‘‘(یعنی غَزوۂ تَبوک ) کی تیّاری کیلئے ترغیب ارشاد فرما رہے تھے ۔ حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عَفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُٹھ کر عَرْض کی :یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پالان اور دیگر مُتَعَلِّقَہ سامان سَمیتسو۱۰۰ اُونٹمیرے ذِمّے ہیں۔ حُضورسراپا نور، فیض گَنجور،شاہِ غَیُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الرِّضْوَان سے پھرتَرغِیباً فرمایا۔تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں تمام سامان سَمیت دوسو۲۰۰ اُونٹ حاضِر کرنے کی ذِمّہ داری لیتا ہوں۔دو۲ جہاں کے سلطان ، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الرِّضْوَان سے پھرتَرغِیباً ارشاد فرمایا تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں مع سامان تین سو۳۰۰ اُونٹ اپنے ذمّے قَبول کرتا ہوں۔
      راوی فرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حُضورِ انور ، مدینے کے تاجور ، شافِعِ مَحْشر ، بِاِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر، محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ سن کر مِنبرِ مُنَوَّر سے نیچے تشریف لاکر دومرتبہ فرمایا:’’ آج سے عثمان(رضی اللہ تعالٰی عنہ)جوکچھ کرے اُس پر مُواخَذَہ (یعنی پوچھ گچھ) نہیں۔‘‘ (تِرْمِذی ج۵ ص۳۹۱ حدیث ۳۷۲۰

      عُثمانِ غنی کااِتِّباعِ رسول
      امیرُالْمُؤمِنِین،حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنیرضی اللہ تعالٰی عنہزبر دست عاشقِ رسول بلکہ عشقِ مصطَفٰے کا عملی نُمونہ تھے اپنے اقوال واَفعال میں محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّتیں اور ادائیں خوب خوب اپنایا کرتے تھے ۔چُنانچِہ ایک دن حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسجدکے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوا یا اور کھایا اوربِغیرتازہ وُضو کئے نَماز اداکی پھر فرمایا کہ یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی اِسی جگہ بیٹھ کریِہی کھایا تھا اور اِسی طرح کیا تھا۔
      (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج ۱ص۱۳۷ حدیث۴۴۱)

      حضرتِ سیِّدُنا عُثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک بار وُضو کرتے ہوئے مُسکرانے لگے! لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: میں نے ایک مرتبہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اسی جگہ پر وُضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔

      (اَیضاً ص۱۳۰حدیث۴۱۵ مُلَخّصاً)

      غذا میں مثالی سادگی
      حضرتِ سیِّدُناشُرَ حْبِیْل بن مسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ امیرُالْمُؤمِنِین، حضرت سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ لوگوں کو امیر وں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سرکہ اورزیتو ن پر گزارہ کرتے ۔ (اَلزُّہْد لِلامام اَحمد ص۱۵۵ حدیث۶۸۴)

      کبھی سیدھا ہاتھ شَرْمْ گاہ کو نہیں لگایا
      امیرُالْمُؤمِنِین،حضرت سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:جس ہاتھ سے میں نے یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارک پر بَیْعَت کی وہ(یعنی سیدھا ہاتھ ) پھر میں نے کبھی بھی اپنی شَرْمْ گاہ کو نہیں لگایا۔ ( ابن ماجہ ج۱ ص۱۹۸حدیث۳۱۱)
      حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! میں نے نہ توزمانۂ جاہِلیّت میں کبھی بدکاری کی اورنہ ہی اسلام قَبول کرنے کے بعد۔ (حلیۃُ الاولیاء ج۱ص۹۹)

      بند کمرے میں بھی نِرالی شَرْم و حیا
      حضر تِ سیِّدُناحسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے امیرُالْمُؤمِنِینحضرت سیِّدُنا عُثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شرم و حیا کی شدّت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’ اگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی کمرے میں ہوں اوراُس کا دروازہ بھی بند ہو تب بھی نہانے کے لئے کپڑے نہ اتارتے اورحیا کی وجہ سے کمر سیدھی نہ کرتے تھے۔‘‘ (حِلْیۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۹۴ حدیث ۱۵۹)

      ہمیشہ روزے رکھا کرتے
      امیرُالْمُؤمِنِین،حضرتِ سیِّدُناعُثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ نفلی روزے رکھتے اور رات کے ابتِدائی حصّے میں آرام فرماکربقیّہ رات قِیام (یعنی عبادت) کرتے تھے ۔
      (مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ ج۲ص۱۷۳)

      خادم کو زحمت نہیں دیتے
      آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تو اضع (یعنی عاجزی) کا یہ حال تھا کہ رات کو تہجُّد کے لیے اٹھتے اور کوئی بیدار نہ ہواہوتا تو خود ہی وُضو کا سامان کر لیتے اور کسی کو جگا کر اس کی نیند میں خلَل انداز نہ ہوتے۔چُنانچِہ امیرُالْمُؤمِنِینحضرت سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رات تہجُّد کے لیے اٹھتے تو وُضُو کا پانی خود لے لیتے تھے۔ عرض کی گئی: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کیوں زَحْمت اٹھاتے ہیں خادم کو حکم فرما دیا کریں۔ فرمایا: نہیں رات اُن کی ہے اِس میں آرام کرتے ہیں۔ (ابنِ عَساکِر ج۳۹ص۲۳۶)

      لکڑیوں کا گٹّھا اُٹھائے چلے آرہے تھے!
      امیرُالْمُؤمِنِین،حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک موقع پرا پنے باغ میں سے لکڑیوں کا گٹھااٹھائے چلے آرہے تھے حالانکہ کئی غلام بھی موجود تھے۔ کسی نے عرض کی: آپ نے یہ گٹھا اپنے غلام سے کیوں نہ اُٹھوالیا؟ فرمایا: اُٹھواتو سکتا تھا لیکن میں اپنے نفس کو آزمارہاہوں کہ وہ اس سے عاجِز تو نہیں یا اسے ناپسند تو نہیں کرتا! (اَللُّمع ص۱۷۷)

      قَبر دیکھ کر سیِّدُ نا عثمانِ غنی گریہ وزاری فرماتے
      امیرُالْمُؤمِنِین ، جامعُ القراٰن ،حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ قَطْعی جنَّتی ہونے کے باوُجُود بھی قَبْر کی زِیارت کے موقع پر آنسو روک نہ سکتے تھے واِس قَدَر روتے کہ آنسوؤں سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رِیش(یعنی داڑھی) مبارَک تَر ہو جاتی

      آخِرت کی فِکْر دل میں نور پیدا کرتی ہے
      حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :دنیا کی فکر دل میں اندھیرا جب کہ آخِرت کی فکرنور پیدا کرتی ہے۔ (اَلمُنَبّھات ص۴)

      خون ریزی نا منظور
      حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کیبے مثال صبر و تحمّل پر قربان! جامِ شہادت تو نوش فرمالیا مگرمدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مسلمانوں کا خون بہنا پسند نہ فرمایا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکانِ عالیشان کا مُحاصَرہ ہوا اور پانی بند کر دیا گیا۔ جاں نثاروں نے دولت خانے پر حاضِر ہوکر بَلوائیوں سے مقابلے کی اجازت چاہی مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اجازت دینے سے انکار فرما دیااورجب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام ہتھیاروں سے لیس ہو کر اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو فرمایا : اگر تم لوگ میری خوشنودی چاہتے ہو تو ہتھیار کھول دو اور سُنو! تم میں سے جو بھی غلام ہتھیار کھول دے گا میں نے اُس کو آزاد کیا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! خون ریزی سے پہلے میرا قَتْل ہو جانا مجھے زیادہ مَحْبوب ہے بمقابلہ اِس کے کہ میں خون ریزی کے بعد قتل کیا جاؤں ۱؎ یعنی میری شہادت لکھ دی گئی ہے اور نبیِّ غیب دان ، رسولِ ذِیشان، مَحْبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے اِس کی بشارت دے دی ہے ۔ حضرت ِسیِّدُنا عُثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے غلاموں سے فرمایا:’’ اگر تم نے جنگ کی پھر بھی میری شہادت ہوکر رہے گی۔‘‘ (تحفۂ ا ثنا عشریہ ص۳۲۷)

      حسَنَینِ کریْمَیْن نے پَہرا دیا
      مولائے کائنات،مولا مشکِلکُشا، شیرِ خدا ،علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ، الْکَرِیْم حضرتِ سیِّدناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے حدمَحبَّت کرتے تھے۔ حالات کی نازُکی دیکھ کر آپ نے اپنے دونوں شہزادوں حَسَنَینِ کریْمَیْن یعنی امامِ حسن و حُسین رضی اللہ تعالٰی عنہما سے فرمایا:’’ تم دونوں اپنی اپنی تلواریں لے کر حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دروازے پر جاؤ اور پہرا دو۔قَضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ جب غالِب آئی حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت ہوئی تو حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰیَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ، الْکَرِیْم کو سخت صدمہ ہوا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَپڑھا ۔

      شہادت کبریٰ
      ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو نبی اکرم کے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش ، جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی ،کے بعد اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ آپ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ، کئی دن کے روزے سے تھے ،اور اپنے گھر میں محصور تھے۔گو کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفہ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔
      یہ عظیم سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی درحقیقت صرف حضرت عثمان کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مسلمان تفرقہ اور انتشار میں ایسے گرفتار ہوئے کہ نکل نہ سکے آپ کی شہادت پر مدینہ میں ایک عام کہرام مچ گیا
      امام اعمش اور حافظ ابن عساکر نے صاحب اسرار رسول حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت کیا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلا فتنہ حضرت عثمان کا قتل ہے اور سب سے آخری فتنہ خروج دجال ہے اور اس ذات کی قسم جس کہ قبضے میں میری جان ہے کہ وہ شخص جس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی حضرت عثمان کے قتل کی حب ہے ، اگر اس نے دجال کو پالیا تو وہ اس کی پیروی کیے بغیر نہیں مرے گا اور اگر اس نے اسے نہ پایا تو وہ اپنی قبر میں اس پر ایمان لائے گا۔


      اپنے مَدْفن کی خبر دیدی!

      حضر تِ سیِّدُ نا امام مالِک علیہ رحمۃ اللہِ الملک فرماتے ہیں کہ امیرُ المؤمنین حضر ت سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک مر تبہمدینۃُ الْمنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے قبرِستان ’’جنَّتُ البقیع‘‘ کے اُس حصّے میں تشریف لے گئے جو’’حَشِّ کَوْکَب ‘‘ کہلاتا تھا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہا ں ایک جگہ پر کھڑے ہو کر فرمایا: ’’ عنقریب یہا ں ایک شخص دفْن کیا جائے گا۔‘‘چُنانچِہ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہا دت ہو گئی اور باغیو ں نے جنازہ ٔمبارَکہ کے ساتھ اس قَدَر اُودھم بازی کی کہ نہ روضۂ منوَّ رہ کے قریب دَفْن کیا جا سکا نہ جنَّتُ البقیع کے اُس حصّے میں مدفون کئے جاسکے جو صَحا بۂ کِبار (یعنی بڑے صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان) کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دُور الگ تھلگ ’’حَشِّ کَوْکَب ‘‘ میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سپر دِ خا ک کئے گئے جہا ں کو ئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا کیو نکہ اُس وقت تک وہا ں کوئی قبر ہی نہ تھی ۔ (کراماتِ صحابہ ص۹۶، الرِّیا ضُ النَّضرۃ ،ج ۳ ص۴۱وغیرہ)

      شہاد ت کے بعد غیبی آواز
      حضر تِ سیِّدُنا عَدی بن حا تم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے: حضر تِ سیِّدُنا امیرُ المؤ منین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے دن میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ کوئی بُلند آواز سے کہہ رہاہے:اَبْشِرِ ابْنَ عَفَّانَ بِرَوْحٍ وَّرَیْحَانٍ وَّبِرَبِّ غَیْرِ غَضْبَانَ ط اَبْشِرِ ابْنَ عَفَّانَ بِغُفْرَانَ وَرِضْوَان۔(یعنی حضر ت عثما ن بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو راحت اور خوشبو کی خوش خبری دو اور نا راض نہ ہو نے والے رب عَزَّ وَجَلَّ کی ملا قات کی خبرِ فرحت آثار دو اور خدا عَزَّ وَجَلَّ کے غُفران و رِضوان (یعنی بخشش و رضا) کی بھی بشارت دو) حضرت سیِّدُنا عَد ی بن حا تم رضی اللہ تعالٰی عنہ فر ماتے ہیں کہ میں اس آواز کو سن کر اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگا ااور پیچھے مڑ کر بھی دیکھا مگرمجھے کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ ( ابن عَساکِر ج۳۷ص۳۵۵،شَوا ہِدُ النُّبُوَّ ۃ،ص۲۰۹)


      مَد فن میں فِر شتوں کا ہُجُو م
      روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا جنازۂ مبارَکہ چند جاں نثار رات کی تاریکی میں اُٹھا کر جنّتُ البقیع پہنچے ،ابھی قبرشریف کھود رہے تھے کہ اچانک سُواروں کی ایک بَہُت بڑی تعداد جنَّتُ البقیع میں داخِل ہوئی اِن کو دیکھ کر یہ حضرات خوفزدہ ہو گئے ۔سُواروں نے بآوازِ بلند کہا : آپ حضرات بالکل مت ڈریئے ہم بھی ان کی تدفین میں شر کت کے لئے حاضِر ہوئے ہیں۔ یہ آواز سن کرلو گوں کا خوف دُور ہو گیا اور اطمینا ن کے ساتھ حضرتِ سیِّدنا عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تدفین کی گئی ۔ قبرِستان سے لوٹ کر ان صَحابیوں (عَلَيهِمُ الّرِضْوَان) نے قسم کھا کر لوگوں سے کہا کہ یقینا یہ فرشتوں کاگروہ تھا۔ (کراماتِ صحابہ ص۹۹، شَوا ہِدُ النُّبُوَّ ۃص۲۰۹مُلَخَّصاً )

      طبری کہتے ہیں :حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کوئی طبعی موت نہ مرا۔ان میں سے کچھ پاگل ہوگئے ۔کنانہ بیان کرتے ہیں:میں نے ایک سیاہ فام مصری جبلہ کو، جس نے سب سے پہلے حضرت عثمان سے بدزبانی کی اور انھیں قتل کی دھمکیاں دیں،اس حال میں دیکھا کہ ہاتھ پھیلا کر آہ و زاری کر رہا تھا، میں ہی قاتل ہوں۔ محمد بن ابوبکر کو گدھے کے پیٹ میں ڈال کر گدھے کو آگ لگا دی گئی۔عمیر بن ضابی نے حضرت عثمان کے گال پر اس وقت تھپڑ مارا تھا ،جب وہ خطبۂ جمعہ دے رہے تھے ۔پھر ان کی میت پر حملہ کیا ۔اس کا ہاتھ سوکھ کر لکڑی کی طرح سخت ہو گیاآخر کارحجاج نے اس کی گردن اڑا دی۔حجاج بن یوسف نے کمیل کو بھی مروا دیا۔




      Similar Threads:

    2. #11
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      973
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      242

      Re: 18 Zil Hajj -Shahadat Hazrat Usman-e-Gani Radi Allahu Anhu

      thanks all to read


    3. #12
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html hir's Avatar
      Join Date
      Jul 2015
      Posts
      969
      Threads
      26
      Thanks
      0
      Thanked 11 Times in 9 Posts
      Mentioned
      7 Post(s)
      Tagged
      1117 Thread(s)
      Rep Power
      24

      Re: 18 Zil Hajj -Shahadat Hazrat Usman-e-Gani Radi Allahu Anhu

      Bahut achha hai!!!


    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 2 of 2 FirstFirst 12

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •