اگست 1995ء ہمارے ملک پاکستان کی ممتاز شخصیت کافی علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے۔ تحریک پاکستان میں ایک وقت ایسا تھا کہ ان کا شمار مسلمانوں کے قومی افق پر ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا دھارا موڑنے میں صف اول کی خاتون تھیں۔ اور آزادی کے تحفے سے فیض یاب ہوئیں لاہور ہو یا پشاور ہو خواتین کی صف اول کی لیڈر تھیں۔ قائداعظم کی قابل اعتماد اور سچی رفیق کار تھیں۔ کئی بار جرأت کے وہ مظاہرے کیے تھے کہ لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان اور خواتین ہی تھیں وہ چاہتی تھیں کہ کسی طرح صدیوں کی انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کریں۔ وہ ایسی پرجوش مقررہ اور شاعرہ تھیں کہ اپنے جذبہ حریت سے شعلہ آزادی کو کئی برس تک فروزاں رکھا۔ بحیثیت ایک نامور خاتون انہوں نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ پکڑ دھکڑ، قیدوبند سے کوئی ڈر ان کو نہ تھا۔ یونین جیک جھنڈا اتارتے وقت انہوں نے انگریز کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ سیکرٹریٹ کی عمارات کے اندر سوئیں اور پاکستانی جھنڈا لہرانے میں فاطمہ بی بی کے ساتھ وہ بھی آگے آگے تھیں۔ ان کے اندر تقریر کا وہ فن تھا کہ مسلمان مرد اور عورتوں کے دلوں میں آزادی کی شمع، نظریہ پاکستان اور محبت مسلم لیگ کی روشن ہو جاتی۔ ایسی شخصیت بڑی مدت کے بعد میسر آتی ہے۔ ان کی شاعری مزاج کے اندر تبدیلی لانے والی ہوتی تھی۔ اتنی بڑی قلمکار شاعرہ ہونے کے باوجود وہ انتہائی خلیق خاتون تھیں۔ شگفتہ طبیعت کی مالک تھیں وہ عوام میں بہت جلد گھل مل جاتی تھیں۔ یعنی غرور قسم کی چیز کو کوئی اپنا ذاتی نقصان قرار دیتی تھیں وہ ایک مقتدر علمی گھرانے کی خاتون تھیں۔ ان کے شوہر نامدار ڈاکٹر تصدق حسین مشہور قانون دان ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ ان کو علامہ اقبالؒ سے بے حد محبت تھی۔ اس جوڑے کو اللہ نے زندگی کے اعلیٰ حوالوں سے گزارا۔ وہ ہنر قانون میں یکتا تھے اور بیگم صاحبہ نے سیاست کو عبادت بنا رکھا تھا۔ ان کے گلشن کو خدا نے ایک پھول، پھول واحد سے نوازا جس کا نام اسلم ریاض رکھا۔ خدا نے اس کو بھی قانونی شعور اور فہم سے نوازا کہ مقام عرفان و شہرت میسرآئی۔ وکالت کے مدارج سے ایک محرک جج بنے اور گورنر ہوئے اور ان کا ملک کے اعلیٰ ہنرمند اور باشعور ججوں میں شمار ہوا۔ اسلم ریاض والدین کی طرح نہایت خلیق، شریف اور تابع طبع کا مالک ہونے کی مثال ہے۔ 1953ء کا زمانہ تھا کہ بیگم سلمیٰ تصدق حسین کو مسلم لیگ کا ٹکٹ لاہور شہر کی سیٹ کا میسر آیا۔ ان کے مقابلے میں باجی رشیدہ کی بیٹی محمونہ تھیں۔ جو اندرونی لاہور کی مشہور لیڈر تھیں۔ طالب علمی کے زمانہ میں راقم طلبا ڈینٹل کالج یونین اورپنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری تھا اور مسلم لیگ نیشنل گارڈز کا سیکرٹری تھا۔ شیخ عنایت اللہ پنجاب مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ محترم سعید، ظفر اللہ چوہدری سول مسلم لیگ لاہور کے صدر تھے، نواب زادہ رشید علی خان لاہور شہر کے مسلم لیگ کے پرانے صدر تھے۔ سید عباس علی شاہ پنجاب مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے سالار تھے۔ اور ایسے بے شمار بزرگ تھے۔ جن کے نام یاد نہیں یہ لوگ تھے جنہوں نے مسلم لیگ اور شمع آزادی کوفروزاں رکھا۔ حسن اتفاق سے ہم بھی اس ٹیم میں بیگم صاحبہ کی الیکشن مہم میں شامل تھے۔ مسلم لیگ کی ایک سبز رنگ کی جیپ تھی۔ جب ہم اپنی مہم پر نکلتے تو اکثر وہ خراب ہو جاتی۔ ہم نے اپنی تقریروں، نعروں اور نظموں سے اندرون شہر کی آبادی جو مسلم لیگ ذہن کی مالک تھی، کے سامنے بیگم تصدق حسین صاحبہ کی مسلم لیگ سے وابستگی کی حقیقت کو پیش کرتے۔ خیرالیکشن ہم جیت گئے۔ بیگم صاحبہ اسمبلی کی ممبر بن گئیں۔ بڑی مشکلات تھیں اس تمام عمل سے مسلم لیگ کی واضح پوزیشن عوام میں دوبارہ سامنے آگئی۔ ان ہی دنوں اسلم ریاض کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے ورکر فین روڈ کوٹھی آتے۔ تواضح نہایت سادہ ہوتی ہر چیز کا معیار و اخلاق تھا اس وقت سے لے کر آج تک آپا کے ہاں آنا جانا رہا۔ وہ مستقل معدہ کی شکایت رکھتی تھیں۔ دانتوں میں تکلیف ہوتی تھی۔ کبھی تھوڑے دانت نکلوائے پھر مصنوعی دانتوں کی دقت تھی، مگر سیاسی اور سماجی کام کبھی نہیں چھوڑا۔ اور نہ ہی گھر کے برآمدے کی رفاقت چھوڑی۔ خدا جانے برآمدے سے اتنی محبت کیوں رکھتی تھیں کہ ہم نے کبھی صوفہ پر ان کو بیٹھتے نہیں دیکھا۔ صوفوں پر سفید رنگ کے کور دیکھے۔ برآمدہ میں فون، برآمدہ میں میٹنگ۔ برآمدہ میں شاعری اور کھانا بھی اکثر سونا بھی وہیں۔ آخر وقت تک ہی برآمدہ ساتھی تھا۔ برتن سادہ، خوراک سادہ، گھر سادہ، لباس سادہ، رفتار، گفتار عمدہ، خلق عظیم تھا۔ کہیں جلسہ ہو وہ وہاں صدارت کررہی ہیں۔ ایک انگلی دانت پر ہے ایک ہاتھ درد والی جگہ یعنی معدہ پر ہے مگر کیا مجال کہ وہ آرام کریں۔ ایک طرف رشتے ناطے کرا رہی ہیں تو دوسری طرف طلباء کو شاباش دے رہی ہیں۔ تیسری طرف بازیافتہ عورتوں کی کمیٹی میں کردار ادا کررہی ہیں۔ اس کمیٹی میں مجھے ساتھ رکھا۔ جہاں میاں عبدالباری، صوفی عبدالحمید، شیخ صادق صاحب، اس کمیٹی کے ممبر تھے وہ ایسی داستانیں سناتیں کہ انسان پر خوف طاری ہو جاتا کہ کس طرح ہندو اور سکھوں نے ہماری خواتین کو قبضہ میں لیا۔ کیا کچھ بداخلاقی ان کے ساتھ ہوئی۔ کئی مسلمان بچیاں بچوں کی مائیں ہوچکی تھیں۔ وہ کیسے آئیں؟ انہوں نے جواب دیا ’’اب لینے آئے ہو اب تو ہمارے دو دو بچے ہوگئے ہیں۔ عورت اپنے بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔ ’’میں نے ڈینٹل سرجری کی ڈگری 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور کوئٹہ بلوچستان کا پہلا ڈینٹل سرجن مقرر ہوا۔ لاہور کی سیاست سے دور ہوا تھا کہ ایوب خان کا مارشل لاء آگیا۔ خدا جانے بیگم سلمیٰ تصدق حسین کو کس نے مشورہ دیا کہ وہ پرانی مسلم لیگی ہونے کے باوجود ایوب خان کے ساتھ ہوگئیں اور ڈپٹی وزیر ہوگئیں، اسی طرح محترم احمد سید کرمانی بھی وزیر ہوگئے۔ ہزارہ سے خداداد خان بھی وزارت میں شامل ہوگئے۔ چونکہ یہ حضرات فکری اعتبار سے کٹر مسلم لیگی تھے ہمیں بڑا صدمہ ہوا۔ ہم نے ان تینوں سے سوشل قطع تعلقی کرلی۔ ہماری دوبارہ بات چیت تب ہوئی جب وہ وزارت میں نہ تھے۔ آزادی کا مفہوم ہمارے نزدیک مفادات نہ تھے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے مثال بننا تھا کہ کسی کا مفاد نظر انداز نہ ہو۔ ہمیں بڑا دھچکا لگا خیر وقت گزرتا گیا بیگم صاحبہ سیلاب میں سماجی کام کرتی رہتیں اور دیگر شعبوں میں بھی۔ خدا نے ان کے دل میں خدیجہ الکبریٰ کا خیال ڈالا۔ ایک ڈسپنسری بنائی، مسجد بنائی، تعلیمی ادارے تشکیل دیئے۔ مجھے اور میری اہلیہ ڈاکٹر اقبال صوفی کو اس ادارے سے منسلک کیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ خواتین کو کوئی مقام میسر آجائے۔ مجلس تحریک کارکنان کا بورڈ اپنے گھر فین روڈ لگوایا۔ قاضی صاحب کو کمرہ دیا۔ کام میں لگی رہیں۔ آخر میں وہ پاکستان کے حالات سے بہت متاثر ہوئیں۔ آخری دنوں جب میں جاتا تووہ مجھے پہچان لیتیں۔ دوائی کے لیے کہتیں مجھے دوائی لا دو۔ جسٹس اسلم ریاض ایک دن اماں کے پاس ملے۔ وہ کہنے لگے اماں اب بڑی کمزور ہیں حافظہ کم ہوگیا ہے پہچان ختم ہوگئی ہے۔ جسٹس اسلم ریاض خود بھی عمر کے اس حصے میں ہیں۔ ان کو بھی دیکھ بھال کی ضرورت ہے بھلا کون خیال کرتا؟ مختصراً بیگم سلمیٰ ایک ادارہ تھیں، ایک شفقت گاہ تھیں۔ تحریر بڑے غم کے ساتھ لکھی جارہی ہے وہ بے شمار خاصیتوں کا مجموعہ تھیں۔ اللہ ان کو بخشے اور پاکستان کو مضبوط کرے۔ آمین۔ وہ پاکستان کے حالات پر کڑھتی رہتی تھیں۔ فکرمند تھیں وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ 1953ء سے لے کر 1995ء تک میرا ان کے پاس آنا جانا باقاعدہ تھا۔ وہ میرے تمام امور میں مشورہ دیا کرتی تھیں۔ (پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کی تصنیف ’’صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت اور قائداعظم محمد علی جناح ؒکے ساتھی‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭
Similar Threads:
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Nice Sharing
Thanks for sharing
intelligent086 (02-17-2016)
Moona (02-15-2016)
Very nice sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
intelligent086 (02-17-2016),Moona (02-15-2016)
@intelligent086 Thanks for Informative Sharing
intelligent086 (02-16-2016)
Moona (02-16-2016)
...
intelligent086 (02-17-2016)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Thanks for informative and useful sharing
intelligent086 (10-03-2017)
رائے کا شکریہ
رائے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks