کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی کو راہ میں پڑا ہوا سکہ مل جائے تو وہ اسے اپنی خوش بختی کی علامت سمجھتے ہوئے، سکے کو محفوظ کر لیتے ہیں، یعنی کسی ڈبے وغیرہ میں رکھ لیتے ہیں، اور اسے وقتاً فوقتاً دیکھتے بھی رہتے ہیں۔ کیا آپ بھی اسے خوش قسمتی سمجھتے ہیں؟ لیکن میں تو اسے خوش قسمتی ہی سمجھتا ہوں، جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ: بات سکّے کی مالیت کی نہیں ہے، بات احساس کی ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ان دنوں 25سینٹ سے کیا خریدا جا سکتا ہے؟ لیکن میرے نزدیک اس کی بڑی قیمت ہے، بڑی اہمیت ہے کیونکہ بات ہے احساس کی، کہ راہ چلتے کسی سکے کا مل جانا خوش بختی کی علامت ہے۔ کیا یہ عجیب سی بات نہیں ہے کہ کسی کو 25سینٹ کا سکہ مل جائے اور وہ جامے میں پھولا نہ سمائے، ہے نا عجیب سی بات! یہ بات عجیب سی نہیں ہے بلکہ انتہائی مسرّت بخش ہے، میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے لیے بلکہ ان لوگوں کے لیے جنہیں اس طرح کوئی سکہ مل جائے۔ اگر آپ ماہرین نفسیات سے پوچھیں گے کہ واقعی یہ بات بے حد خوش کن ہے؟ تو وہ آپ کو جواب دیں گے: بات یہ نہیں کہ واقعہ کیا ہے، یا اس کی نوعیت کیا ہے؟ اور ایسا کیوں کر ہوا؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جس شخص کو یہ واقعہ پیش آیا وہ اسے کس طرح محسوس کرتا ہے، یہ اس کا اپنا ذہنی روّیہ ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اسے نحوست کی علامت سمجھتا ہو، یا خوش بختی کی؟ کیونکہ مادی روّیہ، ذہنی رویے سے مختلف ہوتا ہے۔ مادی رویے کے مطابق 25سینٹ کچھ بھی نہیں ہیں لیکن ذہنی روّیے کے نزدیک یہ نہایت قیمتی ہے، اسی لیے کہا گیا ہے:’’آپ ویسے ہی بنتے ہیں جیسا کہ آپ سوچتے ہیں۔‘‘ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ اگر آپ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں تو یہ آپ کا ذہنی روّیہ ہے اور یہی ذہنی رویہ آپ کو روحانی مسرت عطا کرتا ہے، ایک ناقابل بیان مسرت سے آشنا کرتا ہے۔ خوش بختی اور بدبختی، دونوں ذہنی رویے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر شخص ایسا ہی محسوس کرے کہ جیسا میں نے بیان کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص اس سکے کو اٹھاتا تو اس کی ’’مالیت‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے دور پھینک دیتا۔ ایسا روّیہ مادی روّیہ کہلاتا ہے، اورمادی روّیہ بہرحال ذہنی رویے سے کم تر ہوتا ہے۔ چھوٹی سی خوشی کو بڑا سمجھ لینا ذہنی اور روحانی روّیہ ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟اگر آپ ’’کامیابی سے متعلق مشیروں‘‘ سے مشورہ لیں گے تو وہ بھی یہی کہیں گے ’’یہ خوش قسمتی کی علامت ہے، اسے سنبھال کررکھیے گا۔‘‘ آخر کیوں؟ اس لیے کہ آپ یہ امید رکھ سکیں کہ مستقبل آپ کو مزید خوشیاں دے گا۔ آپ کی خوش بختی اسی طرح قائم رہے گی جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اسے حاصل کر لیں گے۔ آپ کا مستقبل روشن ہو جائے گا۔ اسے ’’رجائیت پسندی یا امید پرستی بھی کہتے ہیں۔‘‘ رجائیت پسندی یا امید پرستی ایک مثبت ذہنی رویہ ہے، یہ انسان کے اندر زندہ رہنے کی امنگ پیدا کرتا ہے، حالات سے جنگ کرنا سکھاتا ہے، غموں کو برداشت کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ میرا نظریہ شروع سے یہی رہا ہے کہ میں لوگوں کے ’’خوش قسمتی کے رویے‘‘ کی حوصلہ افزائی کرتا رہوں، اس لیے میرے نزدیک 25 سینٹ کا سکّہ ایک ایسا بیج ہے جسے کسی ڈبے وغیرہ میں بو کر (بیج کر) اچھے مستقبل کی خواہش کی جا سکتی ہے۔ ہر سکّے کے دو رخ ہوتے ہیں، جیت کا یا ہار کا، خوش بختی کا یا بدبختی کا۔ میں نے ہمیشہ خوش بختی والے رخ کا انتخاب کیا ہے؟ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے، آپ بھی 25سینٹ کے سکے کو کسی ڈبے میں ’’بُو‘‘ دیں، تاکہ آپ بھی ’’خوشیوں کی فصل‘‘ کاٹ سکیں… (ایم- آر- کوپ میئر ’’خیالات کی طاقت‘‘ سے مقتبس،ترجمہ: ڈاکٹر اقبال کاردار) ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks