منصور مہدی
حکومت پاکستان نے رواں سال کو سیاحت کاسال قرار دیا ہوا ہے اور اس بارے میں اکثر بیانات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں مگر عملی طور پر صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت، عدم توجہی، مقامی لوگوں میں شعور کی کمی اور مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ہڑپہ میں واقع دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی باقیات زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہیں اور پانچ ہزار برس قبل اس خطہ میں آباد ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں سے بنائے گئے اس شہر کے آثار معدوم ہونے لگے ہیں اور ماضی میں کی گئی کھدائی کے دوران ملنے والے قیمتی اور نایاب نوادرات چوری ہوتے چلے گئے اور اس طرح قدیم تاریخ کا جدید شہر دریافت ہونے سے پہلے ہی اجڑ گیا جبکہ وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے آثار کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے سائٹ جانوروں کی آماجگاہ بن کر رہ گئی اور اس طرح ملکی سیاحت کو فروغ دینے کے حکومتی دعوے اور ہڑپہ کو ٹورسٹ سپاٹ بنانے کا خواب ادھورا رہ گیا ۔معلوم تاریخ کے حوالے سے دنیا میں تقریبا پانچ ہزار برس قبل تین تہذیبیں معرض وجود میں آچکی تھیں جن میں ایک دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے کنارے عراق میں میسوپوٹامیہ، دوسری دریائے نیل کے کنارے مصر اور تیسری وادی سندھ کی تہذیب کہلائی۔ وادی سندھ کی تہذیب سلسلہ ہمالیہ کے دامن سے لیکر بحیرہ عرب تک تقریبا چار لاکھ مربع میل میں پھیلی ہوئی تھی۔اس تہذیب کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اسکا رقبہ اپنی دونوں ہمعصر تہذیبوں کے رقبے سے دوگنا ہے اور اب اس تہذیب کے پاکستان اور بھارت میں چار سو پچاس سے زائد آثار دریافت ہو چکے ہیں جن میں ایک ہڑپہ بھی شامل ہے۔قدیم ہڑپہ شہر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں نے پڑھنا اور لکھنا بھی دیگر تہذیبوں کے لوگوں کی نسبت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور یہاں کے رہنے والے اس دور کے ترقی یافتہ لوگ تھے جو منظم اور منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کے بنے ہوئے شہر اور عوام کی ضروریات کے مطابق ترتیب دی ہوئی گلیاں، کوچے، پینے کے پانی اور سیوریج کا نظام اکیسویں صدی کے لوگوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔قدیم ہڑپہ شہر تقریبا پانچ ہزار تین سو سال قبل یہ لوگ آباد ہونا شروع ہو گئے تھے اور چار ہزار چھ سو سال قبل یہ لوگ ترقی کے عروج پر پہنچ گئے تھے یہاں کے باشندے تاجر اور زراعت پیشہ تھے جبکہ ہنر مند افراد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔قدیم ہڑپہ کے آثار تقریبا ایک سو پینسٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جن کی دریافت حادثاتی طور پر 1890 میں اس وقت ہوئی جب لاہور سے ملتان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو ریلوے ٹریک کیلئے اینٹوں کی سپلائی دینے والے ٹھیکیدار نے ہڑپہ میں اینٹوں کی کان دریافت کی ہوئی تھی اور یہاں سے اینٹیں لا کر ریلوے لائن کی تعمیر میں لگائی جاتی رہیں اورجب بعض افسروں نے اینٹوں کی مخصوص ساخت کو دیکھا اور تحقیق کی تو 1920 میں جا کر پتہ چلا کہ یہ اینٹیں ہڑپہ کے قدیم شہر کی تھیں چنانچہ 1920 میں ہی اس علاقے کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔مگر تب تک قدیم تاریخ کا یہ جدید شہر اجڑ چکا تھا اور جب اس وقت کی حکومت نے یہاں پر کھدائی کا کام شروع کیا تو نامناسب حالات کی وجہ سے یہاں سے ملنے والے نوادرات کی حفاظت نہ ہو سکی۔ پاکستان بننے کے فوری بعد سے محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی کمی اور بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی کھدائی اور نوادرات کی حفاظت اور ان سے تاریخ اور علم جاننے کا کام غیروں کے مرہون منت رہا مگر اب جب محکمہ آثار قدیمہ میں ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں مگر مناسب مقدار میں فنڈ نہ ہونے اور دیگر شعبوں کی طرح روایتی سستی اور غفلت کی وجہ سے قدیم ہڑپہ شہر کی باقیات زبوں حالی کا شکار ہو گئیں۔ لوکل آبادی میں تعلیم اور شعور کی کمی نے بھی اس جدید طرز پر آباد شہر کے آثاروں کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ آثار کے گرد چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بھی اسے محفوظ نہ رکھا جا سکا اگرچہ موجودہ اکیسویں صدی میں قدیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور قدیم آثاروں سے علم حاصل کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ایسے لوگوں کیلئے مناسب سہولیات مہیا کر کے انہیں یہاں آنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے اور اسے ایک خوبصورت پکنک سپاٹ میں تبدیل کر کے نہ صرف ملکی سیاحوں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے حکومتی خزانے میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اس پورے علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے مگر سیاحت کو فروغ دینے کے ذمہ دار محکموں کی ناقص منصوبہ بندی، عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے اس علاقے کی ترقی کے خواب کو اس کی عملی تعبیر نہ مل سکی۔دنیائے تاریخ میں شہروں کے بسنے اور اجڑنے کی داستانیں صفحہ قرطاص پر بکھری پڑی ہیں ان میں ہڑپہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آریاوں کی مقدس کتاب رگ وید میں ہری یوپیا کا ذکر ملتا ہے جس کے معنی سنہری قربان گاہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نام ہڑپہ کی صورت اختیار کرگیا جس کو گردش دوراں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہڑپ کر لیا ویسے بھی پنجابی زبان میں سیلاب کو ہڑ کہتے ہیں اور شاید یہی لفظ بگڑتے بگڑتے ہڑپہ بن گیا۔ ٭٭٭ - See more at: http://dunya.com.pk/index.php/specia...1#.VaIE5X1jYqE




Similar Threads: