• السلام و علیکم
    کیسے ہیں آپ تمام قارئین .
    یہ ناول کسی بھی خاندان یا کسی بھی ایک فرد کی ذاتی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا ، بلکہ انتہائی سوچ پر مبنی ناول ہے، جس کا کسی بھی انسان سے یا اس کی زندگی سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں، اور کسی کی زندگی سے اس کا میل کھانا محظ اتفاق ہے. اس ناول کا عنوان ابھی منتخب نہیں کیا گیا ہے، نام کچھ دنوں میں یہاں تحریر کر دیا جائے گا کیوں کے یہ ناول ابھی تحریر کے مراحل سے گزر رہا ہے . بہت شکریہ .




    شہیر آج کافی برسوں بعد واپس آ رہا ہے ، آپ کا کیا خیال ہے، وہ کہاں رہنا پسند کرے گا. ہمارے ساتھ یا وہیں اپنے گھر میں، میں نے تو یہاں اسکا کمرہ بھی تیار کروا لیا ہے، اور اس گھر کو بھی صاف کروا دیا ہے. اب یہ شہیر کی مرضی ہے جہاں اسکا دل کرے رہے.

    دیکھو زہرہ ، تم اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ شہیر کے سامنے پرانی باتیں نا دہرانا . میں چاہتا ہوں، اس بار وہ پاکستان آئے تو ہمارے ساتھ ہی رہے. مجھ سے بھی اب آفس سمبھالا نہیں جاتا ہے، ہمارا پوتا ابھی چھوٹا ہے. ہمارے بیٹے یعنی شہیر کو ہی اس کاروبار کو سمبھالنا ہے. فزراء اب شہیر کی زندگی میں نہیں ہے، موت کسی کی تڑپ ، کسی کا دکھ نہیں دیکھتی ہے. موت نے شہیر کی تڑپ اور دکھ نہیں دیکھا ، فزراء کو بھی شہیر سے جدا کر دیا . ورنہ ہم نے تو یہ اسکی زندگی کا آخری فیصلہ اور آزمائش سمجھ کر اسکو اپنے سے دور کر دیا تھا. کہ وہ ہمیں بھول کر اپنے لئے زندگی میں نئی رونقیں تلاش کرے . مجھے تو یہ فکر بھی ہے، کہ ہمارے پوتے یعنی شہرم کو اتنے سالوں بعد اپنا باپ قبول بھی ہوگا یا نہیں، باپ کی غیر موجودگی میں ہم نے اسے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی. مگر میرے دل کو چیرتے اسکے سوال یہ ہی ظاہر کرتے تھے کے وہ اپنے باپ کی جدائی کو باپ کی لا پرواہی اور بے وفائی ہی تصور کرتا ہے.

    شہیر کی زندگی میں مٹھاس لانے کے لئے ہم نے بھی تو یہ نہیں سوچا کے یہ معصوم بچہ بھی تو جیتا جاگتا اور جذبات رکھنے والا انسان ہے، اس کے جذبات کب اور کہاں ہم بالاے طاق رکھتے رہے ، ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں. اے کاش شہرم قبول کر لے شہیر کو.




    کیا کہ رہے ہیں دادا جانو آپ . میں اس انسان کے آنے پر خوش ہو جاؤں جس نے مجھے مڑ کر دوبارہ نہیں دیکھا، دادا جانو ، وہ شخص میرا باپ ہے. مگر صرف نام کا . میرا دل سسکتا تھا جب میرے دوست اپنے باپ کا اپنی ماں کا ذکر کرتے تھے. میں تڑپ جاتا تھا جب نیند میں یہ خیال مجھے جگاتا تھا کے میرا کوئی نہیں. دادا جانو ، اگر آپ نا ہوتے تو میرا کون تھا.

    دادا جانو نے اپنے پوتے کو سینے سے لگا لیا. اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولے. میرا بھی تو کوئی نہیں میرے لال.
    تم نہیں جانتے ، کن حالات میں ہم نے شہیر کو تم سے جدا کیا تھا. اس رات اگر ہم نے یہ فیصلہ نا کیا ہوتا. تو ہم شہیر کو ہمیشہ کے لئے کھو دیتے . میرے بچے ، تم نہیں جانتے ، تمھارے باپ کی کیا حالت تھی. کبھی کبھی انسان اپنے بس میں بھی نہیں رہتا .

    دادا جانو ، میں بھی تو اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا. میں نے اپنے باپ کا کیا بگاڑا تھا، جو بھی حالات تھے. جیسے بھی حالات تھے. میں اپنے باپ کے ساتھ کا بھی حقدار نہیں تھا کیا؟ کیا مجھے اتنا حق بھی نہیں تھا کہ میں کسی کا بیٹا ہونے کا احساس جی سکوں ، کیا میں ایک مکمل انسان نہیں کہلا سکتا تھا اپنی زندگی کے اس دور میں جب میری شخصیت کی تعمیر ہو رہی تھی. میرا آج. محرومیوں کا شکار ہے. کوئی کمی نہیں رکھی میرے لئے آپ نے دادا جانو . کوئی ایک کمی بھی نہیں رکھی. پر کیا میرے جذبات ، میرے احساسات ، میری تڑپ جو والدین کے لئے ہر انسان کے دل میں ہوتی ہے، اس کا کوئی مداوہ ہے ؟ اس کمی کو کوئی پورا کر سکتا ہے. کیا میرا گزرا کل واپس لوٹ آئے گا ؟ نہیں دادا جانو . پلٹ کر وہ وقت نہیں آ سکتا .

    دیکھو شہرم ، تم سے اس معاملے پر میں تفصیل سے بات کرنا چاہتا ہوں. آج تک میں صرف تمھارے سمجھدار ہونے کا انتظار کرتا رہا. تم اپنے باپ سے بد زن ہوتے چلے گئے.

    دادا جانو میں اس قصے کو یہیں تمام کرتا ہوں. میں بچہ نہیں ہوں جو بہل جاؤں گا. مجھے اپنے گزرے کل کے ایک ایک پل کا حساب چاہئے.
    شہرم کے طور طریقوں میں بلا کی خود اعتمادی آ چکی تھی. اس گھر میں اگر اسکی کوئی کمزوری تھی ، تو وہ اسکے دادا جانو یعنی میاں نصیر الدین ہی تھے. اور میاں نصیرالدین پچھلے تین سالوں سے شہرم پر کاروبار کی ہلکی پھلکی ذمداریاں ڈالنا چاہ رہے تھے. مگر شہرم ابھی ان جھمیلوں سے خود کو مبراء رکھنا چاہتا تھا.

    شہرم 18 سال کا اچھے ڈیل ڈول کا مالک لڑکا تھا. دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے دو گھنٹے اسکے جم میں گزرتے ، یونیورسٹی سے فراغت پا کر شہرم اکثر سیدھے سنوکر کلب میں چلا جاتا تھا. دادی دادا کا بے جا لاڈ اور شہرم کا اکیلا پن بھی شہرم کے کردار پر کوئی منفی پہلو مرتب نہ کر پائے تھے. بلکہ باپ کی کمی نے شہرم کو خاصہ خود مختار بنا دیا تھا.

    دادا جانو . میں جا رہا ہوں.
    کہاں جا رہے ہو شہرم ، تمہارے باپ کو لینے کے لئے تمہیں ہی ایئر پورٹ جانا ہے.
    نہیں دادا ، مجھے آپ اس زحمت سے محفوظ ہی رکھیں، بلکہ جب تک آپ کے بیٹے یہاں ہیں. میں آپ کو کم کم ہی نظر آؤنگا. ویسے بھی میرے پیپرز سٹارٹ ہونے والے ہیں. بلکہ مجھے آپ کو یہ بتانا تھا کے میں نے ایوننگ میں اکیڈمی جوائن کر لی ہے. جم سے میں سیدھا اکیڈمی جایا کرونگا.

    بیٹا واپسی کب ہوگی ؟
    پتا نہیں دادا جانو. جب دل کرے گا. واپس آ جایا کرونگا .
    تم ہمارے ساتھ زیادتی کر رہے ہو شہرم. تمہارا ایسا کرنا ہماری پرورش کا حصہ نہیں.

    دادا جانو ، میں آپ لوگوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کر رہا. بلکہ آپ لوگ میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، اس گھر میں ایک اجنبی کو جگہ دے کر.

    اجنبی. شہیر تمہارا باپ ہے ، اجنبی نہیں ہے.
    میرے لئے وہ اجنبی ہے دادا . جس نے مجھے اپنے پیار، اپنے وقت ، اپنے جذبوں سے محروم رکھا. میرے لئے وہ اجنبی ہی ہے.
    شٹ آپ بیٹا .

    نو دادا اٹز ناٹ مائی فالٹ . میں جا رہا ہوں، آج میرا اکیڈمی میں پہلا دن ہے مجھے دیر ہو گئی تو میرا قیمتی وقت جو تعلیم کے لئے ہے وہ برباد ہوگا .
    او کے بیٹا . جاؤ. تمہارے دادا نے آج تک تم پر کوئی زبردستی نہیں کی ہے. مگر یہ بھی یاد رکھنا بیٹا . کہ میں نے آج تک کبھی تم سے کچھ مانگا بھی نہیں ہے .
    دادا ..آپ مجھ سے آپ کے بیٹے کے لئے وقت کے علاوہ کچھ بھی مانگ کر دیکھیں. میں جان حاضر کرنے کو تیار ہوں.

    رکو ، کہاں جا رہے ہو شہرم.
    نصیر صاحب آپ اپنے پوتے کو روکتے کیوں نہیں. آج شہیر آ رہا ہے. اور خدا کی کرم نوازی دیکھئے. اس بار شہیر نے خود مجھ سے اپنے پسند کے کھانے کی فرمائش کی ہے. آج میں اپنے ان بوڑھے ہاتھوں سے خود کھانا پکاؤں گی اپنے بیٹے کے لئے.

    جانے دو اس کو زہرا بیگم . مجھ سے پوچھ کر جا رہا ہے.
    شہرم نے دادا جانو کی اس بات پر شکریہ کے انداز میں دادا کی طرف دیکھا .

    یار . دادا جانو نے کیا سوچ کر دادی سے یہ کہا کے میں ان سے پوچھ کر جا رہا ہوں، جبکہ دادا جانو نے تو مجھے اجازت تک نہیں دی ہے جانے کی. کہیں میری طرف سے دادا جانو پر یہ زیادتی ہی تو نہیں. پر میں کیوں اس انسان کے لئے اپنے دل میں جگہ بناؤں کہ جس کو میں جانتا تک نہیں. پر دادا جانو کی مصلحتوں سے میں واقف ہوں. ضرور دادا کی اس بات میں بھی کوئی بات ہوگی. پر میرے دادا نے میرے لئے کبھی کوئی ایسی مصلحت نہیں رکھی کہ جس سے میں نہ خوش ہوا ہوں. شہرم نے یہ سب سوچتے ہوئے کار سٹارٹ کی اور اپنی اکیڈمی کا رخ کیا .


    اکیڈمی کا پہلا دن ، بہت دلچسپ رہا . ویسے بھی شہرم اپنے دھیان کو بانٹنا چاہتا تھا. اس غرض سے اس نے اپنی کلاسز ختم ہونے کے بعد بھی پہلا دن اکیڈمی میں ہی گزارا . کچھ نوٹس اکھٹے کیے. کچھ پروفیسرز حضرات سے ملاقات کی . اور اگلی کلاسز کا شیڈول معلوم کیا.

    سر مجھے اپنی کلاسز کا شیڈول معلوم کرنا ہے.
    آپ وہاں ریسپشن پر جائیے وہاں آپ کو تمام معلومات مل جایئں گی.
    او کے سر .

    ایکس کیوز می . کائندلی آپ میری تھوڑی ہیلپ کرینگی. مجھے اپنے شیڈول کے بارے میں آپ سے کچھ ڈسکس کرنا ہے.
    جی پوچھئے .
    ریسپشن پر کچھ ضروری معلومات کرنے کے بعد شہرم وہیں قریب پڑے بنچ پر بیٹھ گیا.

    اپنے کام سے فارغ ہو کر ریسپشنسٹ نے ضروری کاغذات اکھٹے کیے. اور گلہ کھنکھارتے ہوئے شہرم کے قریب سے گزرتے ہوئے تھوڑے سے راستے کی گزارش کی. شہرم نے ریسپشنسٹ کو جگہ دی کہ وہ با آسانی گزر سکے.

    چلیں مریم ؟ وہیں سے ملحقہ کمرے میں آدھا دروازہ کھول کر ریسپشنسٹ نے آواز دی.
    شہرم اسکی خود اعتمادی دیکھ رہا تھا. اور یہاں وہاں بیٹھے لڑکے لڑکیوں سے اسکی بے نیازی بھی دیکھ رہا تھا.
    مریم اور ریسپشنسٹ پیدل چلتے ہوئے اکیڈمی کے گیٹ کی طرف روانہ ہو گیئں.





Similar Threads: