الحمد کا تعارف و مفہوم٭٭
یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالٰی کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بےکسی اور بےبسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں۔ تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہودو نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالٰی کی طرف کی گئی اور انعمت کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور آیت (مغضوب علیھم کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالٰی ہی ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (غضب اللہ علیھم) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں حالانکہ اور جگہ ہے آیت (من یہد اللہ فھوالمھتد ومن یضلل)الخ یعنی اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں۔ اور جگہ فرمایا آیت (من یضلل اللہ فلا ھادی لہ) الخ یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ وتعالیٰ ہی ہے قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالٰی نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے۔ آیت (فاما الذین فی قلوبھم زیغ) یعنی جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لئے آیت (الحمد للہ) بدعتیوں کے لئے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لئے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے۔
آمین اور سورۃ فاتحہ٭٭
سورۃ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ آمین مثل یاسین کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ تو قبول فرما۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد، ابو داؤد اور ترمذی میں وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیت (غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین) کہہ کر آمین کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے۔ ابو داؤد میں ہے آواز بلند کرتے تھے۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ حضرت علی حضرت ابن مسعود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے اور دارقطنی بتاتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے (ابو داؤد) حسن بصریٰ اور جعفر صادق سے آمین کہنا مروی ہے۔ جیسے کہ آیت (امین البیت الحرام) قرآن میں ہے۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہئے۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے۔ نمازی خود اکیلا ہو، خواہ مقتدی ہو، خواہ امام ہو، ہر حالت میں آمین کہے۔صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہی وسلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب امام ولا الضالین کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا۔ ابن عباس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں۔ آپ نے فرمایا اے اللہ تو کر۔ جوہری کہتے ہیں اس کے معنی “اسی طرح ہو” ہیں۔ ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ہماری امیدوں کو نہ توڑ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی “اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما” کے ہیں۔ مجاہد، جعفر صادق ہلال بن سیاف فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالٰی کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ابن عباس سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں۔ امام مالک کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔ اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔ لیکن بخاری مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کر آمین کہتے تھے۔
“آمین” باآواز بلند٭٭
جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں۔ امام ابو حنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ اور ایک روایت میں امام مالک سے بھی مروی ہے اس لئے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے۔لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لئے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے واللہ اعلم۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہئے۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو، خواہ منفرد، مترجم، مسند احمد میں صرف عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں۔ ایک تو جمعہ کو اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا۔ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو۔اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں۔ ابن مردویہ میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالٰی کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر۔ حضرت انس والی حدیث میں ہے کہ نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالٰی کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالٰی انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا۔ اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا آیت (ربنا انک اتیت فرعون) الخ ہے یعنی الٰہی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے آیت(قداجیبت دعوتکما) الخ یعنی تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ تم مضبوط رہو اور بےعلموں کی راہ نہ جاؤ۔ دعا صرف حضرت موسیٰ کرتے تھے اور حضرت ہارون صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے، اس لئے کہ اس کا سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔ (مسند احمد) حضرت بلال کہا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے۔ اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں الحمد کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں واللہ اعلم۔ (یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام آیت (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے اللہ تعالٰی بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے، غالب آئے مال غنیمت جمع کرے، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے “یہ کیوں۔ ” تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے۔ !
Bookmarks