میلان واپس جا کر الوا کا ذوق تجسّس اس کے جسم سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھنے لگا۔ اس کے بزرگ اس کے سوالات کے جواب میں اسے جو باتیں سمجھاتے تھے انہیں وہ ہمیشہ قبول نہیں کرتا تھا۔ اکثر اوقات وہ ان سوالات کا جواب خود اپنے آپ سے دریافت کرتا اور اس کے لیے ثبوت بھی پیش کرتا تھا۔ ایک دن اس نے نرم نرم روئیں والے بہت سے چھوٹے چوزے دیکھے۔ اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ ننھّے ننھّے چوزے کہاں سے آتے ہیں؟ اس کی متحمل مزاج نگران نین نے اسے بتایا کہ مرغیاں انڈے دیتی ہیں پھر وہ ان پر اس وقت تک بیٹھتی ہیں جب تک سفید خول سے چوزے نہیں نکل آتے۔ ذرا دیر بعد ال کو ہر شخص سے نظریں بچا کر گھر سے نکل جانے کا موقع مل گیا۔ وہ سیدھا مرغی خانے میں گیا اور اس نے انڈے جمع کرنے شروع کر دئیے۔ یہاں تک کہ اس کی ہیٹ اور جیبوں میں بالکل جگہ باقی نہیں رہی۔ پھر وہ دبے پائوں کھلیان میں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے تازہ اور خوشبو دار گھاس کا ایک گھونسلا سا بنایا، انڈے بڑے سلیقے سے ایک دائرے میں رکھ دئیے اور ان پر بڑی احتیاط سے بیٹھ گیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر معلوم کرنا چاہتا تھا کہ چوزے انڈے ہی سے نکلتے ہیں یا نہیں۔ ایک گھنٹے بعد نین کو پتہ چلا کہ چھ سالہ ال غائب ہے۔ وہ اسے پکارتے پکارتے تھک گئی۔ اس نے مکان کا کونہ کونہ چھان مارا، آخر وہ کھلیان میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ال خشک گھاس پر چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔ ال نے بڑے فخر سے اعلان کیا’’ میں انڈوں کے چوزے بنا رہا ہوں۔‘‘ نین کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی:’’آدھے انڈے نہیں سیتے ! تم نے بلا وجہ اپنے کپڑے ستیاناس کر لیے ہیں۔‘‘نین نے بگڑ کر کہا۔ اس نے ال کا ہاتھ پکڑ کر اوپر گھسیٹ لیا۔ سوکھی ہوئی گھاس پر ٹوٹے انڈے پڑے چپ چپا رہے تھے۔ ال رونے لگا۔ ’’میں تمہیں تمہاری امّی کے پاس لے چلوں گی۔‘‘ نین نے اسے ڈانٹ کر کہا۔ ال اس لیے نہیں رویا تھا کہ اس کی پتلون خراب ہو گئی تھی، رونے کا سبب یہ تھا کہ اس کے تجربے کا نتیجہ اچھا نہ نکلا تھا۔ جب اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ ال انڈوں پر کیوں بیٹھا تھا تو اس نے اسے سمجھایا کہ انڈوں سے چوزے نکالنے میں تین ہفتے لگتے ہیں اور ان نازک انڈوں پر صرف مرغی ہی اس طرح بیٹھ سکتی ہے کہ وہ ٹوٹنے نہ پائیں۔ چند دن بعد ال کی ماں اسے مرغی خانے میں لے گئی۔ اس نے مرغی کو اٹھا کر ال کو دکھایا کہ انڈے کس طرح کٹک رہے ہیں؟ ال نے اپنی آنکھوں سے ایک زرد اور نرم و نازک چوزے کو انڈہ توڑ کر باہر نکلتے بھی دیکھا۔ اسے یقین ہو گیا کہ چوزے انڈوں سے ہی نکلتے ہیں۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ تجربوں سے باتوں کا جواب یقیناً مل جاتا ہے مگر شرط یہ کہ تجربے ٹھیک طرح کیے جائیں۔ ایک طرف کم عمر ال اپنے تجربوں میں مصروف تھا اور روز بروز بڑھتا اور زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا تھا، دوسری جانب میلان کا چھوٹا سا شہر زیادہ چھوٹا ہوتا جا رہا تھا اور اس کی خوش حالی گھٹتی چلی جا رہی تھی۔ ال کی پیدائش کے بعدہی اوہایو کے شمالی سرے سے ایک ریلوے لائن نکال دی گئی تھی مگر وہ میلان کے اندر سے نہیں گزرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو گندم اور عمارتی لکڑی میلان کے راستے ایری جھیل اور اس کی بندرگاہوں کو بھیجی جاتی تھی وہ میلان آنا بند ہو گئی۔ یہ چیزیں اب نہر کی بجائے ریل پر بھیجی جانے لگی تھیں اور ان کے ساتھ ہی شہر کی خوشحالی بھی ختم ہونے لگی تھی۔ مسٹر ایڈیسن کے کارخانے میں بننے والی لکڑی کی کھپریلوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اس لیے انہوں نے کسی ایسی جگہ چلے جانے کا فیصلہ کیا جہاں ریلوے لائن کی موجودگی ان کی خوش حالی کی ضامن بن سکے۔ 1854ء میں جب ال سات سال کا تھا ایڈیسن کا خاندان (میلان) اوہایو سے پورٹ ہیورون (مشی گن) منتقل ہو گیا۔ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote

Bookmarks