google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: بِلاعنوان

    1. #1
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 saba's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      219
      Threads
      16
      Thanks
      23
      Thanked 13 Times in 10 Posts
      Mentioned
      22 Post(s)
      Tagged
      3459 Thread(s)
      Rep Power
      24

      بِلاعنوان





      بِلاعنوان
      پندرہ دسمبر کی سہانی صبح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      جلدی کرو ۔۔۔ بس آنے والی ہے اور تم ۔۔اب تک تیار نہیں ہو۔روز کا یہی معمول ہے اُس کے باوجود ہر روز دیر کردیتے ہو۔وقت کی بلکل قدر نہیں ہے۔امی بس دو منٹ عاشر نے کہا اور بالوں میں جلدی جلدی برش پھیرنے لگا۔اب آبھی جاؤ ناشتہ میز پر لگا دیا ہے۔عاشر امی کی آواز پر کمر سے باہر نکلا اور جوس کا گلاس اٹھا کر پینے لگا ۔ارے یہ کیا ؟ صرف جوس تم نہیں سُدھرو گے ۔روز کہتی ہو ں وقت پر اٹھ جایا کرو مگر نہیں جناب یہ تو ہو نہیں سکتا اور۔۔۔۔عاشر ان سُنی کرتا ہوا بس کے ہارن کی آواز پر باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔ عاشر میرا اکلوتا بیٹا اور میں۔۔میری کُل کائنات۔۔۔۔۔
      عاشر کے جانے کے بعد میں نے گھر کے کام نمٹائے اور پھر باورچی خانے میں جا کر اُس کا پسندیدہ کھانا بنانے میں مصروف ہوگئی۔پیاز کاٹنے کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے پانی تیزی کے ساتھ بہہ رہا تھا۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجنے لگ میں نے ہاتھو ں کو جلدی سے صاف کیا اور فون کی جانب بڑھی ۔۔۔۔ہیلو ثانیہ ۔۔دوسری جانب سے ایک اجنبی آواز سُن کر ۔۔میں بولی کون؟ ثانیہ میں سارا پہچانا نہیں تم نے۔۔۔سارا۔۔۔لمحہ بھر میں پانچ سال پیچھے میرا ذہن پہنچ گیا۔ہاں سارا ۔۔تم ۔۔کہاں۔۔ تھیں اب تک بے ساختہ بے ر بط سے جملے میرے منہ سے نکلے۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے اپنے جذبوں کا اظہار کروں خوش ہو کر یا ۔۔میں نے جلدی سے اپنے اوسان بحال کیے اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔۔ تم آؤ میرے پاس پھر ہم بیٹھ کر گپ شپ کریں گے ۔اتنے طویل عرصے کے بعدآج تم سے بات ہورہی ہے اس طرح دل کوتسکین نہیں ملتی۔تم کل ہی آجاؤ صبح سے شام تک ہم سارا وقت اکھٹے گزاریں گے۔سارا میری بات سُن کر ہنستے ہوئے بولی ٹھیک ہے کل ملتے ہیں خدا حافظ ۔یہ کہہ کر اُس نے فون بند کردیا۔
      اور میں ریسور ہاتھ میں تھامے گئے وقت کی ستم ظریفی کو سوچتی رہ گئی۔ کہی اور ان کہی سبھی بیتی یادیں کنکر بن کر آنکھوں میں چبھنے لگیں۔
      سارا میں اور یا سر ہم تینوں کا گروپ پورے کالج میں مشہور تھا۔یاسر سُنو تو۔۔ کہاں چل دےئے میں یاسر کے پیچھے پیچھے تقریبا بھاگ رہی تھی۔اور وہ تیز تیز قدموں سے آگے اور آگے بڑھتا ہی جارہا تھا۔اس کی ناراضگی میری جان نکال دیتی تھی۔اور آج پھر وہ مجھ سے ناراض تھا۔ وہ اورمیں ۔ میں اور وہ۔ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے۔کوئی بات کبھی ایک دوسرے سے چھپاتے نہیں تھے۔یاسر سُنو تو میری بات کل میں تمہارے پاس آرہی تھی تو راستے
      میں ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ۔کیا کیا ہوا تھا؟؟۔۔یاسر ایک دم پریشان ہو کر رُک گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا۔
      وہ ایک بچہ بس کے نیچے آتے آتے بچ گیا میں بر وقت اُسے ہسپتال لے گئی معمولی چوٹیں آئیں تھیں ابھی وہ ہسپتال میں ہے۔آٹھ سال کا معصوم بچہ ۔۔اچھا اُس کی چھوڑو اپنی بتاؤ تم ٹھیک ہو یاسر نے بے قراری سے مجھ سے پوچھا۔میں ٹھیک ہوں بلکل ٹھیک مجھے یاسر کی پریشانی پہ ہنسی آگئی۔بس اب آئندہ ایسی ہمدردی کسی کے ساتھ کرنے کی ضرورت نہیں یاسر نے بر ہمی سے کہا ۔کیا اور کوئی نہیں تھا اس کی مدد کرنے کے لیے۔ یاسر۔۔۔۔میں اُسے حیرت سے دیکھ رہی تھی کیا کہہ رہا ہے۔ہاں بس کہہ دیا تم سے یاد رکھنا چلو اب کینٹین صبح سے تمہاری وجہ سے کچھ نہیں کھایا ہے یاسر نے مجھ سے کہتے ہوئے کینٹین کی طرف چلنا شروع کردیا۔اور میں کسی خاموش بُت کی مانند اس کے ساتھ چلتی چلی گئی۔
      میں۔۔ یعنی ثانیہ سعید۔۔رات کے بارہ بجے ٹیرس پہ کھڑی اس بچے کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کا آج ایکسیڈینٹ ہو اتھا اور کل اسے چھٹی ملنے والی تھی۔
      کل کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      ۔ وہ معصوم پیارا سا بچہ میرے ذہن کے کینوس سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔اُس کا اِس بھری دنیا میں کوئی نہ تھا۔ وہ ایک کھولی میں اپنے منہ بولے خالوکے ساتھ رہتا تھا اور اس کے خالو بہت ظالم تھے۔روز کما کر اُسے کچھ نہ کچھ انھیں دینا پڑتا تھا۔اور آج میں نے اُسے زبردستی ہسپتال میں ٹہرنے کے لیے مجبور کیا تھا۔حالانکہ اس معصوم نے مجھے بہت کہا کے کل اس کا خالو اُسے گھر میں داخل نہیں ہونے دے گا۔مگر میں اُسے اس حالت میں کیسے جانے دیتی۔۔۔یہی سب سوچتے سوچتے جانے کتنا وقت بیت گیا تھا مجھے معلوم ہی نہ ہوا۔مجھے اب یہ فکر لاحق تھی کہ کل میں اُس کے لیے کیا کروں گی۔۔۔بلاآخر میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے گھر ۔۔ہاں اپنے اِس چھوٹے سے گھر میں جہاں میں اور پاپا رہتے تھے اس معصوم کو بھی لے آؤں گی۔مجھے اب پاپا سے بات کرنا تھی مجھے پوری امید تھی کہ وہ میرے اِس فیصلے پرکوئی اعتراض نہیں کریں گے بلکہ خوش ہونگے ۔۔اذان کی آواز کے ساتھ ہی مجھے وقت گزرنے کا اندازہ ہوا۔جلدی سے اندر آکر وضو کیا نمازِ فجر ادا کیاور اپنے فیصلے میں خدا کی رضا مانگی۔نماز کے بعد مجھے بے حد سکون محسوس ہوا۔مجھے ابھی نیند نہیں آرہی تھی اور مجھے پاپا سے بھی بات کرنا تھی وہ نماز کے بعد چہل قدمی ضرور کرتے تھے ۔میں بھی گھر کے باغیچے میں چہل قدمی کی نیت لیے کمرے سے باہر نکلی۔
      باہرہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی بہت خوبصورت ماحول ہورہا تھا۔سُرخ گلاب جو کئی دن سے کھلنے کے لیے بیتا ب تھا ۔آ ج پوری آب و تاب کے ساتھ پھوار میں بھیگ کر اپنے حسن کے جلوے دکھا رہا تھا۔میرا مزاج اتنے دلفریب موسم اور اپنے فیصلے کی وجہ سے بہت اچھا ہورہا تھا۔
      تھوڑی دیر کے بعد مجھے گیٹ میں سے پاپا اندر داخل ہوتے نظر آئے۔میں لپک کر ان کی جانب بڑھی ۔
      اسلام و علیکم پاپا۔۔میں مسکرا رہی تھی۔۔وہ مجھے اس طرح خوش دیکھ کر ۔۔مسکراتے ہوئے میری جانب آئے۔وعلیکم اسلام ۔۔میری گڑیا آج بہت پیاری لگ رہی ہے۔کیا بات ہے۔
      پاپا آ پ سے مجھے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔ہاں بولو۔۔۔وہ میری طرف دیکھتے ہوئے میری بات سننے کے منتظر تھے۔میں نے ان کو کل ہونے والے حادثے کی ساری کہانی سنائی۔اور پھر اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا۔وہ میری بات سن کر کچھ سوچنے لگے۔۔ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر تمہیں اُس بچے کے خالو سے ضرور اجازت لینی ہوگی۔کیونکہ اگر بعد میں انھوں نے کوئی مسئلہ بنادیا تو مشکل ہوجائے گی،صحیح کہہ رہے ہیں آپ پاپا میں آج ہی جا کر پہلے اُن سے ملوں گی پھر ہسپتال جاؤں گی۔شکریہ پاپا میں نے مسکراتے ہوئے پاپا کہ گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
      پاپا سے تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد مجھے تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا تو مجھے یاد آیا میں پوری ر ات نہیں سوئی تھی۔پاپا ناشتہ کرنے کے بعد آفس چلے گئے اور میں کمرے میں سونے کی نیت سے چلی آئی۔آج کالج جانے کا ارادا ملتوی کرتے ہوئے میں نے یاسر کو پیغام بھیج دیا۔اور سوگئی ۔۔اچانک فون کی گھنٹی بجنے کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو کچھ دیر تک مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں کہاں ہوں اور کیا وقت ہوا ہے۔روشنی جلانے کے بعد وقت دیکھا تو دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ارے ہسپتال دو بجے تک پہنچنا تھا۔فون بھی بج بج کر بند ہوچکا تھا۔جلدی سے اٹھی تیار ہو کر ایک پیالی چائے پی اور جلدی سے ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئی۔وہاں پہنچ کر دیکھا تو بچہ غائب تھا۔پریشان ہوگئی نرس سے معلوم کیا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔میں وہیں سر پکڑ کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔نجانے کہاں چلا گیا تھا وہ مجھے تو اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔اُف خدایا اُس معصوم کی حفاظت کرنا ۔میں سوچنے لگی کی اب کہاں تلاش کروں۔
      اچانک میرے ذہن میں اُس کا بتایا ہوا ایک جملہ گونجنے لگا۔۔۔میں اپنے خالو کے ساتھ کچی آبادی میں ایک کھولی میں رہتا ہوں ۔۔۔
      میں جلدی سے اٹھی اور باہر آکر ڈرائیوار سے کہا کچی آبادی کی طرف چلو۔۔۔۔
      ڈرائیور مجھے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      میری طرف کیا دیکھ رہے ہو جلدی چلو مجھے اُس بچے کو تلاش کرنا ہے۔کافی دور جانے کے بعد کچی آبادی کے آثار نظر آنے لگے۔کافی بڑااور پس ماندہ علاقہ تھادور دور تک بے ترتیب جھوپنڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ میںیہاں پہلی بار آئی تھی۔مجھے دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی زیادہ لوگ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔گاڑی رکنے کے بعد کئی چھوٹے چھوٹے بچے ارد گرد جمع ہو گئے تھے اور چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ڈرائیور نے زور سے انھیں ڈانٹا تو سب ڈر کر بھاگ گئے۔میں نے گاڑی سے اتر کر فاصلے پہ کھڑے بچے کواپنے پاس بلایا۔جو بڑی حسرت سے میری گاڑی کو دیکھ رہا تھا ۔وہ کچھ جھجکتے ہوئے میرے قریب آیا۔کیاآج تم نے بستی کا کوئی بچہ جس کے سر پر چوٹ لگی ہو دیکھا ہے ؟ میں نے اس سے بچے کا حلیہ اور چوٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے پوچھا۔نہیں جی میں نے نہیں دیکھایہ کہہ کر وہ دور بھاگ گیا۔میں کچھ اور آگے بڑھی۔ایک عورت اپنے گھر کے سامنے پلنگ پر بیٹھی نظر آئی میں نے سوچا یہ ضرور جانتی ہوگی۔میں اس کے پاس پہنچی اور اس سے پوچھاکہ کیا وہ کسی ایسے بچے کو جانتی ہے جو اپنے خالو کے ساتھ رہتا ہے اور اسے چوٹ بھی لگی ہے۔وہ بولی ہاں دیکھا ہے۔اپنے خالو سے آج صبح بہت مار پڑ رہی تھی اُ سے اگلا جھوپنڑا اُسی کا ہے۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اورجلدی سے برابر والے جھوپنڑے میں داخل ہوگئی۔وہ زمین پر ایک ٹاٹ کے ٹکرے پر اوندھے منہ لیٹا ہوا سسک رہا تھا۔اس کی پشت پر مار کے نشان صاف نظر آرہے تھے۔میں دنک رہ گئی کہ کوئی اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔تڑپ کرآگے بڑھی بچے کو آہستہ سے ہلایا۔وہ گھبرا کر اٹھا اور کھڑا ہوگیا وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید اس کے خالو۔۔۔
      مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوگیا۔آپ۔۔یہاں؟ہاں میں ہسپتال سے تمھیں تلاش کرتے ہوئے آئی ہوں تم کیوں چلے آئے۔لگا تار سوالوں کی بوچھاڑ کردی میں نے۔وہ اصل میں مجھے خالو کا ڈر تھا وہ میری کھال کھینچ لیتے اگر میں واپس نہ آتا۔اب کونسا انھوں نے ترس کھایا ہے تم پرمیں نے غصے سے کہا۔نہیں جی۔ وہ ۔۔۔بس بس۔۔اب زیادہ ان کی طرف داری نہ کروتم۔میں نے الجھ کر اسے بولنے سے روکا۔اپنی حالت دیکھو کتنی بے رحمی سے مارا ہے تم کو۔۔مری آنکھوں میں پانی آگیا۔۔میں نے اسے پیار سے اپنے پاس بلایا۔کیا تم میری ایک بات مانو گے۔جی بولیں۔۔تم میرے ساتھ میرے گھر چلو ۔پریہ ممکن نہیں ہے۔کیوں ممکن نہیں ۔۔بس اب تم یہاں نہیں رہو گے میرے ساتھ میرے گھر میں رہو گے۔ مگر میرے خالو مجھے جانے نہیں دیں گے۔اس نے مایوسی سے گردن نفی میں ہلا کر کہا۔وہ سب تم مجھ پر چھوڑدو۔مجھے اس کے چہرے پر رضا مندی کے تاثرات نظر آرہے تھے۔خالو کہاں ہیں؟وہ ابھی کام پر گئے ہیں رات گئے واپس آتے ہیں۔اچھا ٹھیک ہے میں ابھی جا رہی ہوں رات کو پاپا کے ساتھ آؤں گی تم کو اپنے ساتھ لے جانے میں نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔وہ تشکر اور خوشی کے بھر پور احساس کے ساتھ مجھے تَک رہا تھا۔تم آرام کرو۔میں باہر نکل آئی اور کھلی فضا میں گہری سانس لیتے ہوئے مجھے لگا جیسے سر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔مگر ابھی ایک مرحلہ باقی تھا۔ خالو۔۔۔۔۔
      گھر پہنچتے ہی فون کی گھنٹی نے بجنا شروع کردیا ہیلو۔۔۔ہیلو ثانیہ کیسی ہو؟ کہاں ہو؟ارے ارے ایک ساتھ سب پوچھ لو گے یاسر۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔میں ٹھیک ہوں گھر پہ ہوں۔آج کالج سے غائب کیوں؟ وہ ایک ضروری کام تھا۔کل کالج آکر تفصیل سے بتاؤں گی۔اچھا کل آجانا۔۔۔ہاں ہاں ضرور میں نے اس کی بیتابی پر مسکراتے ہوئے اسے خدا حفظ کہا۔
      شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔پاپا کچھ دیر میں آنے والے تھے مجھے ان کا انتظار تھا۔شام کے چھ بجے پاپاگھر میں داخل ہوئے ۔اسلام و علیکم پاپا!وعلیکم اسلام!پاپا مجھے دیکھے ہی سمجھ گئے کہ انھیں میری بات پہلے سُننی ہوگی۔ہاں بھی کیسا رہا آج کا مشن ۔ وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہے تھے۔پاپا وہ ابھی آدھا آدھا ۔اب آپ کو میرا ساتھ دینا ہے۔اچھا تو کیا کرنا ہے مجھے۔بس آپ رات کو میرے ساتھ چلیں اور اس بچے کے خالو سے بات کرلیں۔پھر ہم اسے اپنے ساتھ لے آئیں گے۔ٹھیک ہے رات کے کھانے کے بعد چلتے ہیں۔پاپا کے چلے جانے کے بعد میں سوچنے لگی اگر خالو نہ مانے تو؟۔۔۔۔۔
      پاپا اور میں رات کو کچی بستی پہنچے۔جھوپنڑے کے سامنے جاکر میں رُک گئی۔دروازہ کھلا ہوا تھا۔زمین پر دنوں بیٹھے ہوئے شاید کھانا کھا رہے تھے۔سُنو میں نے زور سے پکارا۔دونوں نے ایک ساتھ مڑ کر دیکھا
      اور کھڑے ہو گئے۔جی فرمائیے کیا کام ہے خالو نے پو چھا۔میرا نام سعید ہے یہ میری بیٹی ثانیہ۔۔آپ کا نام؟ جی میں ر مضا ن ہوں۔آپ میرے غریب خانے پر کیسے تشریف لائے ؟ ہم آپ کے پاس ایک گذارش لے کر آئیں ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ اس لڑکے کو ہم اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھ لیں۔آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ہونا تو نہیں چاہئے ویسے بھی یہ آپ کی سگی اولاد تو ہے نہیں۔۔۔میں نے جلدی سے کہا۔نہ بی بی جی نہ یہ تو میرا سہارا ہے میں اسے آپ کے حوالے کیسے کر سکتا ہوں اور جب سے یہ میرے ساتھ ہے میں نے اس پر خرچا بھی بہت کیا ہے۔بات سُنو میاں رمضان ہم سمجھ سکتے ہیں تمہاری بات ۔۔تم چاہو تو ہم وہ خرچہ تمھیں دینے کو تیار ہیں۔یہ لڑکا کیا نام ہے اسکا؟ جی ببلو نام ہے اس کا میں ہی رکھا تھا۔کچی بستی کے باہرسڑک پر بیٹھا رو رہا تھاایک روز اپنا نام پتہ کچھ نہیں معلوم تھا۔میں ترس کھا کر لے آیا اسے تب سے اب تک سنبھال رہا ہوں جی۔۔۔۔۔
      ہاں ہاں ۔۔سمجھ رہا ہوں میں۔۔ہاں تو یہ جو ببلو ہے تمہارے ساتھ زیادہ خوش بھی نہیں ہے تم اسے ہمیں دے دو۔اور خرچہ لے لو تم ۔۔میری بیٹی اسے بہت پیار سے رکھے گی۔
      سوچ میں ڈال دیا ہے آپ نے تو جی مجھ کو۔۔۔۔۔۔میں آپ کو دو چار دن میں بتاؤں گا۔نہیں نہیں میں بے ساختہ بولی ابھی فیصلہ کرلو۔مجھے ببلو کہ چہرے پر مایوسی نظر آرہی تھی میں چاہتی تھی کہ اس معصوم کو آج ہی اپنے ساتھ لے جاؤں۔تم کو کل تک جو تم کہو مل جائے گا بس۔۔ببلو ابھی میرے ساتھ جائے گا۔
      آپ تو بہت جلدی مچا رہی ہو بی بی جی۔۔نہیں بس رمضان تم ابھی کہ ابھی اپنا مطالبہ بتادو۔۔
      اچھا!۔۔۔۔ٹھیک ہے جی آپ اسے لے جاؤ پر مجھے اتنا دے دو کہ باقی کی جندگانی آرام سے کٹ جاوے اپنی۔۔۔۔۔ٹھیک ہے رمضان کل میرا ڈرائیور تمھیں آکر پیسے دے جائے گا بس تم نے آج کے بعد مڑ کر بلو کی جانب نہیں دیکھنا۔جی صاحب جی سمجھ گیا میں آپ فکر ہی نہ کرو۔میں بہت خوش تھی۔ راستے بھر میں بولتی رہی پاپا اور ببلو سُن سُن کر مسکراتے رہے۔ببلو آج سے تم اپنی پچھلی ہر بات کو بھلا دو کل ہی میں تمہارا داخلہ ایک اچھے سکول میں کروادوں گی۔اور پھر ہم خریداری کرنے چلیں گے۔ تمہارے لیے کپڑے بھی تو لینے ہیں۔پاپا میرے کمرے کے ساتھ والا کمرہ ببلو کا ہوگا ٹھیک ہے۔ پاپا مسکرائے جارہے تھے ۔ابھی تم گھر جا کر سونا نہیں ہم دونوں بہت ساری باتیں کریں گے۔ببلو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔مجھے اس کہ چہرے سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔آج وہ ایک آزاد پنچھی کی مانند خوش تھا۔
      صبح فجر کی اذان کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔جلدی سے اٹھ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔آج کالج بھی جانا بہت ضروری تھا۔پڑھائی کا آخری سال تھا۔ایگزام میں چند ماہ رہ گئے تھے۔سوچا کالج جانے سے پہلے ببلو کا داخلہ سکول میں کروا کر اُسے گھر چھوڑتی ہوئی کالج چلی جاؤنگی جاکر دیکھا تو وہ معصوم سو رہا تھا ۔آج کا پروگرام کل پر چھوڑتے ہوئے بابا رحمت کو آواز دی ،بابا آپ ببلو کا خیال رکھےئے گامیں کالج سے جلدی آجاؤں گی۔اچھا بیٹیا رانی آپ بے فکر ہو کر جائیے۔
      کالج کے گیٹ پر یاسر ٹہلتا ہوا مل گیا ۔اسلام و علیکم۔۔وعلیکم اسلام۔کیسی ہو؟ میں کافی جلدی آگیا تھا اور تمہارا انتظار کر رہا تھا۔میں ٹھیک ہوں اور کیا آج سارا نہیں آئی جو تم تنہا میرا انتظار کر رہے ہو میں نے مسکرا کر کہا۔ہاں جناب ابھی تک تو موصوفہ تشریف نہیں لائی ہیں۔نجانے کیوں دیر کردی ورنہ وہ تو سب سے پہلے موجود ہوتی ہے کالج میں اورآج تو سر الطاف کی پہلی کلاس ہے لیٹ آنا پسند نہیں انھیں۔
      ہاں چلو پانچ منٹ رہ گئے ہیں کلاس شروع ہونے میں باقی باتیں خالی پریڈ میں کرلیں گے۔
      میں نے جلدی سے قدم کلاس کی طرف بڑھا دئیے۔۔۔۔۔
      ابھی سر کے آنے میں کچھ لمحے تھے کہ سارا بھی ہانپتی کانپتی آگئی۔اور بس والوں کو کوس رہی تھی جو آئے دن ہڑتال کردیتے ہیں۔سر کے آتے ہی کلاس میں خاموشی چھا گئی۔
      لگاتار تین لیکچرز کے بعد جب وقفہ ملا ہم سب کینٹین کی طرف دوڑے۔سینڈوچز اور کولڈ ڈرنک کا لڑکے کو کہہ کر ہم سب آرام سے بیٹھ گئے۔اُف خدایا آج تو بہت تھک گئے سارا نے کرسی پر گرتے ہوئے کہا۔کیا گھر سے پیدل چل کر آئی ہو آج؟ہاں یار کیا بتاؤں بس کی ہڑتال کی وجہ سے آدھا رستہ پیدل آنا پڑا پھر رکشہ والا نظر آیا تو کلاس میں پہنچ پائی ہوں۔یاسر خاموش بیٹھا ہم دونوں کی باتیں سُن رہا تھا۔
      اچھا اسی لیے آج تمھیں دیر ہوئی۔کھا پی کر سارا اٹھی اب مجھے تو لائبریری جانا ہے تم دونوں کا کیا پروگرام ہے۔میں تو گھر جاؤں گی اب یاسر کامعلوم نہیں۔ارے کیوں اتنی جلدی۔۔؟ دونوں ایک ساتھ بولے ہاں میں تم دونوں کو بتانے ہی والی تھی کل جو حادثہ ہوا تھا اس لڑکے ببلو کو میں اپنے گھر لے آئی ہوں۔اور آج اسے سکول میں داخلہ دلوانا ہے۔میں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔سارا بولی تم خدمت خلق کرتی رہنا بس۔ میں تو چلی کل ملتے ہیں۔
      میں نے کل تم سے کیا کہا تھا ثانیہ ۔۔۔تم بھول گئیں؟ نہیں مجھے یاد ہے مگر ببلو کو میں نہیں چھوڑ سکتی تھی اور اگرہماری وجہ سے کسی کی زندگی سنور جائے تو اس میں کیا برائی ہے۔کوئی برائی نہیں پر تم کو یہ سب کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ایگزام قریب ہیں اس کے بعد ہمیں اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کرنا ہے اور تم پتہ نہیں کن مسئلوں میں الجھی ہوئی ہومجھے سمجھ نہیں آتا کہ تمھیں کیوں سب سے ہمدردی کرنے کی دھن لگی رہتی ہے۔تم نہیں سمجھو گے مجھے حیرت ہے تمھاری سوچ پر یاسر۔۔اس وقت تو میں جارہی ہو ں۔ٹھیک ہے جاؤ مگر جلدی ہی اس ببلو سے جان چھڑاؤ۔
      میں گھر میں داخل ہوئی تو خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ببلو ببلو کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      بابا ببلو کہاں ہے؟ وہ اپنے کمرے میں ہے میں نے اسے ناشتہ کروادیا تھا۔آپ کا انتظار کر رہا ہے۔
      میں نے اسکے کمرے میں داخل ہو کراسے پکاراببلو۔۔ببلو۔۔وہ نجانے کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا ایک دم چونک اٹھا۔جی۔۔جی۔۔آپ آگئیں۔ہاں او رتم اتنے خاموش کیوں بیٹھ ہو باہر کھیلنا تھایا ٹیلی ویژن دیکھ لیتے۔ اب تم چلو میرے ساتھ ہم بازار جائیں گے۔اچھا وہ خوش ہو گیا۔۔شام تک ہم دونوں نے ڈھیر ساری خریداری کی اور پھرجب گھر آئے تو پاپا بھی آچکے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔کیسا دن گزرا تم دونوں کا؟بہت اچھا ہم نے خوب مزا کیاپاپا۔اب کل اس کا سکول میں داخلہ کروانا ہے۔اس کی تم فکر مت کرو میں نے سٹی سکول میں اس کا نام لکھوادیا ہے کل اسے سکول جانا ہے۔پاپا آپ کتنے اچھے ہیں ۔اور اب میں چاہوں گا تم دونوں پڑھائی پر توجہ دو۔اور ثانیہ تمہارے ایگزام بہت نزدیک ہیں ۔جی پاپا آپ فکر نہیں کریں میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔اور میں بھی دل لگا کر پڑھوں گا۔شاباش ببلومجھے خوشی ہے تم ایک سمجھدار لڑکے ہو۔جی صاحب جی آپ کا اور بی بی جی کااحسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
      ببلو تم مجھے پاپا کہہ سکتے ہو۔جی۔۔سچ۔۔۔ببلو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔پاپا نے اسے گلے لگا لیا۔اور مجھے آپی۔
      دن پر لگا کر اڑنے لگے۔اگلے ہفتے ایگزام تھے ہم سبھی بہت مصروف ہوگئے۔آخری پرچہ دے کر جب باہر نکلے تو یوں لگا جیسے ایک پہاڑسر سے اتر گیا۔سبھی خوش تھے اور اب اپنے اپنے مستقبل کی بات کر رہے تھے۔ساراکی شادی اگلے مہینے تھی وہ سب کو آنے کی دعوت دے رہی تھی۔یاسر کا امریکہ جانے کا پروگرام تھا۔اور میں۔۔۔۔۔۔۔ثانیہ تم نے کیا سوچا ہے میرے جانے سے پہلے فیصلہ کرلو تو ہم ساتھ ہی امریکہ چلتے ہیں۔نہیں یاسر۔۔میں پاپا کو پاکستان میں تنہا چھوڑ کر نہیں جاسکتی اور ابھی ببلو بھی میری ذمہ داری ہے۔پاپا کو ہم وہیں اپنے پاس بلا لیں گے ۔ببلو کو کسی ہوسٹل میں ڈال دینا۔نہیں یہ ممکن ہیں۔پاپا کسی صورت نہیں مانیں گے اور میں بھی پاکستان میں رہناچاہتی ہوں۔اورببلو کو ابھی میری شفقت اور محبت کی ضرورت ہے ۔تم کیوں ؟ اس کے لیے ا تنا جذباتی ہو رہی ہو۔اس سے تمہارا رشتہ ہی کیا ہے۔۔۔
      میں حیران رہ گئی یاسر کی سوچ کتنی خود غرضانہ سو چ ہے۔مجھے نہیں معلوم تھا تم اس طرح سوچتے ہے۔
      انسانیت بھی کوئی چیز ہو تی ہے۔اور اس کے علاوہ اپنا ملک اور ہما رے لوگ ہمیں ہرچیز سے زیادہ عزیز ہونے چاہئیے۔تم کو بس اپنی ذات کے علاوہ کچھ اچھا نہیں لگتا۔نہیں مجھے تم اچھی لگتی ہو۔۔اور چاہتا ہوں ہمیشہ میرے ساتھ رہو۔مگر تمھاری ذمہ داریاں۔۔۔خیر تم سوچ لو کیا کرنا ہے۔۔میں نے سوچا ہوا ہے میں ابھی تمہارے ساتھ نہیں جاسکتی ہاں تم اپنا مستقبل بنا کر اگر لوٹ آؤ۔تو مجھے یہاں اپنا منتظر پاؤ گے۔
      ثانیہ۔۔۔۔تم ہوش میں ہو کیا کہہ رہی ہو۔۔میرے بغیر رہ پاؤ گی؟ہاں میں رُخ موڑ کر اپنی آنکھ میں آئے پانی کو جھٹک دیا ۔۔کیوں کر رہی ہو تم ایسا۔۔۔تم میری چاہت ہو اور میں جانتا ہوں میں تمہا ری۔
      مگر مجھے تمہاری طرح اپنا ملک چھوڑکر نہیں جانا بس۔۔۔۔۔۔۔۔ تم میرے جانے تک ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔میں انتظار کروں گا۔۔۔۔اور تم اپنے جانے کے فیصلے پر ایک بار پھر نظر ثانی کرلو۔۔۔
      یہ کہہ کر میں گھر آگئی۔
      ساری رات ماہی بے آب کی طرح تڑپتی رہی مگر زندگی تجھے جینا ہے تنہاکی آواز بازگشت بن کر کانوں میں آتی رہی۔کیوں ۔۔۔میرا دل وقت سے پہلے سچائیوں کو سمجھنے لگتا ہے ۔۔نجانے کیوں یاسر کا فیصلہ مجھے معلوم تھا۔۔۔۔اور وہی ہوا۔۔۔یاسر چلا گیا مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔۔
      دروازے کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا۔۔۔۔اوہ۔۔۔بارہ بج گئے ۔۔دوازے پر ڈاکیہ تھا۔بجلی کا بل لایا تھا۔جلدی سے باورچی خانے میں داخل ہوہی اور کام سمیٹ کر ایک بجے تک فارغ ہو کر عاشر کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔
      آج صبح سے ہی میں سارا کا انتظار کر رہی تھی۔سارا دس بجے پہنچ گئی۔ہم دونوں بہت دیر ایک دوسرے کے گلے لگے رہے میری آنکھوں سے ایسے موقع پر پانی ہمیشہ بہنے لگتا ہے۔۔۔پلکوں کو صاف کرتے ہوئے سارا کو بیٹھنے کو کہا۔تم کہاں چلی گئی تھی۔۔۔کیا بتاؤں یار شادی کے بعد میاں جی کے ساتھ کشمیر جانا پڑ گیا ان کی پوسٹنگ ہو گئی تھی بس ایک ہفتہ پہلے واپس آئی ہوں۔اچھا۔۔تم سناؤ کیسی زندگی گزر رہی ہے ۔تم دونوں کی یاسر کہاں ہے؟وہ امریکہ میں مقیم ہے۔۔۔کیا مطلب؟تم دونوں نے شادی نہیں کی تھی ۔۔نہیں وہ چلا گیا تھا مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔تو تم ؟میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں۔بیٹا؟ ہاں یاسر کے چلے جانے کے چند ماہ بعد پاپا بھی مجھے چھوڑ گئے تھے ۔پاپا کے انتقال کے بعد مجھے زندگی تو گزارنی تھی یاسر کے بنا۔۔تمہیں شاید یاد ہو ۔۔میں کالج کے زمانے میں ایک لڑکے ببلو کو اپنے گھر لے آئی تھی۔۔۔۔ہاں ہاں تم نے بتایا تھا۔۔تو بس اسے میں نے اپنا بیٹا بنا لیا تھااور اس کا نام عاشررکھا۔۔۔۔
      اب وہی میرا اور میں اس کا سہارا ہوں۔پاپا میرے لیے اتنااکچھ چھوڑ گئے تھے۔کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔دو سکول چلا رہی ہوں اور کبھی کبھی ہفتے میں چلی جاتی ہوں ۔۔۔زندگی گزر ہی ہے۔
      یاسر سے کوئی رابطہ۔۔۔؟ نہیں۔۔اب وقت بیت گیا ہے باقی بھی گزر جائے گا۔اس نے بھی کوئی کوشش نہیں کی ۔۔۔۔نہیں سارا اس نے کئی بار فون کیا۔۔مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ میں عاشر کو زندگی سے نکال دوں ۔۔۔کیسے نکال دوں جب کسی بے سہارا کو سہارا دیا ہے تو پھر سے تنہا بھٹکنے کے لیے کیوں چھوڑ دوں ۔۔یاسر کی چاہت میرے لیے نہیں تھی ۔اب اگر وہ آبھی جائے تو ممکن نہیں ہے کہ میں اس سے کوئی تعلق جوڑوں۔۔۔کیوں نہیں اب بھی وقت ہے تم اسے ایک بار پکار کر د یکھو۔۔نہیں ساراجب اس وقت میں بہت آسانی سے اس کی بات مان سکتی تھی نہیں مانی تو اب گزرتے وقت کی رفتارکو واپس موڑنا ۔۔۔۔ناممکن ہے۔کہنے کو کتنا آسان ہے چار سال بیت گے۔۔۔سارا سے اس روز کہہ تو دیاکہ اب یاسر سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔مگر یہ دل ۔۔۔۔جو آج بھی ہرپل اُسی کے لیے تڑپتا ہے۔
      اُسے کیسے مناؤں؟؟؟؟
      ختم شد

      saba



      Similar Threads:
      Last edited by saba; 03-27-2015 at 05:15 PM.

    2. #2
      ...."I don't need your attitude. I've my own"..... www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Arosa Hya's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Peace
      Posts
      5,286
      Threads
      972
      Thanks
      965
      Thanked 827 Times in 507 Posts
      Mentioned
      518 Post(s)
      Tagged
      6978 Thread(s)
      Rep Power
      244

      Re: بِلاعنوان

      Behtreen........khobsorat tehreer skon se bhari !!
      ALLAH aisy ache logon ko draz umer ata farmaye ameen
      or yasir jesy logon ko hadayat ata farmaye!!


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •