”میرے آقا ۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھےوہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئےجو مجھےکامیاب کر دے۔“

ان الفاظ کےادا ہوتےہی جیسےاس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سےبھی ہلکا۔ وہ بےوزن ہو گیا۔ اس نےبات ان کی مرضی پہ چھوڑ دی تھی جنہیں اللہ نےاپنا حبیب بنایا اور لوح و قلم پر تصرف عطا کر دیا۔مانگےسےلوگ من کی مرادیں پاتےہیں۔ بِن مانگے‘ اپنی مرضی سےوہ کیا عطا کر دیں‘ کون جان سکتا ہے؟سرمد نےنفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسےنفع کا سودا‘ جس کےلئےاس کےپلےصرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سےاس کا ازلی و ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق ۔۔۔ جس نےاسےہجر و فراق کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانےکی ٹھان لی تھی۔


سرفراز احمد راہی : عشق کا قاف سے اقتباس