SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: اقترب للناس- ١٧

    1. #1
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,213
      Threads
      2245
      Thanks
      931
      Thanked 1,367 Times in 868 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7966 Thread(s)
      Rep Power
      10

      اقترب للناس- ١٧

      ستر ہو یں پا ر ے کے اہم مضامین


      سورة الانبیاء


      سورة الانبیاءسے اس پارہ کی ابتداءہورہی ہے۔ یہ مکی سورت ہے۔ ایک سو بارہ آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید و رسالت اور قیامت کے عقیدہ پر گفتگو کی گئی ہے مگر ”رسالت“ کا موضوع خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے اور مختلف انبیاءو رسل کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ قیامت اور اس کی تیاری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے سورت کی ابتداءمیں فرمایا: لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت قریب آرہا ہے، لیکن وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور جب بھی اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لئے کوئی قرآنی آیت اترتی ہے تو یہ اسے مذاق میں ٹالتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں قرآن سنانے والا تمہارے جیسا بشر ہے۔ جادو کردیتا ہے یا بدخوابی کی باتیں کرتا ہے۔ قرآن اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعرانہ کلام ہے۔ اگر سچا ہوتا تو کوئی معجزہ دکھاتا جیسے پہلے انبیاءمعجزات دکھاتے رہے۔ پہلے انبیاءکے معجزات سے ان کی قوموں نے کوئی فیض حاصل نہیں کیا، جس کی بناءپر وہ ہلاک ہوکر رہے، اب کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ پہلے انبیاءبھی بشر ہی تھے ان پر وحی اتاری گئی تھی، ہم نے انہیں کوئی ایسے ڈھانچے میں تو نہیں بنایا تھا جنہیں کھانے پینے کی حاجت ہی نہ ہو۔ ہم نے ان کی ہدایت کے لئے ایسی کتاب اتاری ہے، جس میں ان کا تذکرہ موجود ہے کہ یہ کتاب جس قدر لوگوں تک پہنچے گی اس کے ساتھ ان کا ذکر بھی پہنچے گا اور پھر اس میں ہر شعبہ زندگی کے اچھے برے لوگوں کے واقعات موجود ہیں، ان کے ضمن میں یہ اپنا تذکرہ بھی اس کتاب میں تلاش کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد قوموں پر عذاب الٰہی کے نزول اور ان کی عبرتناک ہلاکت کا تذکرہ اور پھر معرکہ حق و باطل اور اس کا نتیجہ بتایا ہے کہ حق و باطل باہم ٹکراتے ہیں تو باطل پاش پاش ہوکر رہ جاتا ہے۔ باطل ہے ہی زائل ہونے والی چیز۔ آسمان و زمین کے نظام کا نہایت نظم و نسق سے چلتے رہنا اس بات کا غماز ہے کہ اس نظام کا خالق و مالک ایک وحدہ لاشریک ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بااختیار شخصیات اس نظام کو چلا رہی ہوتیں تو ان کے اختیارات کی جنگ میں کائنات میں فساد برپا ہوچکا ہوتا اور سارا نظام منتشر ہوکر رہ جاتا۔ فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھنے والے غلطی پر ہیں، وہ تو اللہ کے بندے اور اس کے فرماں بردار ہیں۔ وہ اللہ کے سامنے نہ بول سکتے ہیں نہ سفارش کرسکتے ہیں۔ وہ تو اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی دعویٰ کرے کہ اللہ کے مقابلہ میں بھی الٰہ ہوں تو ہم اسے ظالموں کے انجام سے دوچار کرکے جہنم کا ایندھن بنادیں گے۔ یہ لوگ غور کیوں نہیں کرتے؟ آسمان و زمین کا خام مادہ ایک ہی تھا ہم نے الگ الگ کرکے اوپر آسمان اور نیچے زمین کو بنادیا، پھر آسمان و زمین بالکل بند تھے کہ نہ بارش برسے اور نہ ہی نباتات پیدا ہوں۔ ہم نے آسمان سے بارش برسائی اور زمین سے پودے اور درخت اگائے، کیا ان کی عقلیں کام نہیں کرتیں؟ پھر دن رات کا نظام، سورج اور چاند کا اپنے مدار میں چکر لگاتے رہنا، پہاڑ اور ان کے بیچ انسانی نقل و حمل کے لئے راستے، یہ سب قدرت خداوندی کے مظاہر ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد علیہ السلام کی موت پر ان کا پیغام ختم ہوکر رہ جائے گا اور بعد میں ان کا دین نہیں چل سکے گا۔ کیا یہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی صورت میں یہ لوگ نہیں مریں گے؟ کیا انہوں نے دنیا میں بقاءدائمی کا کوئی معاہدہ کررکھا ہے؟ ہر انسان نے موت کے مرحلہ سے گزرنا ہے اور اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ اسے مل کر رہے گا۔ اگر آپ کا استہزاءاور تمسخر کیا جارہا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے پہلے انبیاءکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور ان مذاق اڑانے والوں کو ان کا مذاق ہی تباہی کا شکار کردیا کرتا تھا۔ اللہ کا عذاب اگر رات دن میں کسی وقت اچانک آجائے تو انہیں کون بچائے گا؟ ہمارا عذاب ایسا زبردست ہوتا ہے کہ اس کی ذرا سی جھلک دیکھ کر ہی یہ چلانے لگیں گے۔ قیامت کے دن اعمال کے وزن کے لئے انصاف کے ترازو قائم ہوجائیں گے کسی پر کوئی زیادتی اور ظلم نہیں ہوگا۔ اگر انہوں نے رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی عمل کیا ہوگا تو اس پر بھی جزاءیا سزا کے نظام کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بت پرست قوم کا تذکرہ کہ عید کے موقع پر وہ پکنک منانے اور کھیل کود کرنے شہر سے باہر چلے گئے اور اپنے بتوں کے آگے نذرو نیاز کے چڑھاوے چڑھاگئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو کلہاڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور جب مشرک قوم لوٹ کر آئی اور اپنے خداﺅں کی حالت زار دیکھی تو ابراہیم علیہ السلام کو بلاکر باز پرس کرنے لگی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم سمجھتے ہو کہ بت کچھ کرسکتے ہیں اور بولتے بھی ہیں تو انہی سے پوچھ لو۔ بڑے بت کے کندھے پر کہلاڑے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سب کو کاٹ پیٹ کر برابر کردیا ہے۔ وہ بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ پتھر کے بت تو بول ہی نہیں سکتے۔ یہ حقیقت حال کیسے بیان کریں گے؟ ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے افسوس کا مقام ہے کہ ایسے بے اختیار معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو؟ وہ لوگ لاجواب ہوکر انتہائی نادم اور شرمندہ ہوئے اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کا الاﺅ جلاکر اس میں پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حفاظت فرمائی اور ان کی مشرک قوم کو ناکام و نامراد کیا۔ ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق نامی بیٹا اور یعقوب نامی نامور پوتا عطاءفرمایا اور ان کے بھائی لوط کو بدکار قوم سے نجات دلاکر اس قوم کی خباثت کے نتیجہ میں ہلاک کردیا۔ نوح علیہ السلام کو مشکلات سے نجات دی اور ان کے منکرین کو بدترین عذاب میں مبتلا کرکے نشان عبرت بنادیا۔ داﺅد و سلیمان علیہما السلام کی نبوت و حکمرانی کے ساتھ ان کی فیصلہ کرنے کی بہترین صلاحیتوں کا ذکر اور جنگ سے بچاﺅ کے لئے داﺅد علیہ السلام کی زرہ سازی کو بیان کرکے بتایا کہ دستکاری اور مزدوری کرکے کمانا کوئی عیب نہیں ہے اور اپنا دفاع کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ پھر ایوب علیہ السلام کی بیماری اور ان کے صبر و شکر کے ساتھ اسے برداشت کرنے اور اللہ سے دعائیں مانگنے کا تذکرہ ہے، جس کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں صحت عطا فرمائی اور بیماری کے زمانہ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ فرمایا۔ پھر اسماعیل و ادریس اور ذوالکفل کا مختصر تذکرہ اور ان کی ثابت قدمی کا بیان ہے۔ اس کے بعد مچھلی والے نبی یونس علیہ السلام کا ایمان افروز ذکر کہ قوم پر عذاب کے آثار دیکھ کر وہ یہ سمجھ کر اپنے مقام سے ہٹ گئے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر میری کسی قسم کی گرفت نہیں کریں گے مگر جب انہیں کشتی سے سمندر میں پھینکا گیا اور مچھلی نے نگل کر اپنے پیٹ میں انہیں اتار لیا تو وہ اپنے رب کو پکارنے لگے، جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی اور ساحل پر پہنچادیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی اپنے ایمان والے بندوں کی مدد فرمایا کرتے ہیں۔ پھر حضرت مریم کے عظیم کردار اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت اور ان کے ہاں بیٹے کی کراماتی ولادت کی طرف اشارہ کرکے انبیاءعلیہم السلام کی صالح جماعت کا تذکرہ ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب ایک ہی جماعت کے افراد ہیں اور تم لوگوں کے لئے ہم نے ایک ہی دین ”اسلام“ تجویز کیا ہے، لہٰذا مجھے اپنا رب تسلیم کرو اور میری ہی عبادت کرو۔ پھر علامات قیامت میں بڑی علامت یاجوج و ماجوج کے ظہور کا تذکرہ فرماکر قیامت اور اس کے ہولناک منظر کا بیان شروع کردیا اور بتایا کہ ”رسالت محمدیہ“ تمام کائنات کے لئے باعث رحمت ہے اور تلقین فرمائی کہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے، لہٰذا اسی سے دین اسلام کی حقانیت کا فیصلہ طلب کرنا چاہئے۔

      سورة الحج


      یہ مدنی سورت ہے۔ اٹھتر آیتوں اور دس رکوع پر مشتمل ہے۔ قیامت اور توحید باری تعالیٰ کے بیان کے ساتھ اس میں حج اور جہاد کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ اے انسانو! اللہ سے ڈرو قیامت کا جھٹکا بڑا ہولناک ہوگا۔ دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی جبکہ حاملہ عورتیں اس دن کی دہشت اور خوف سے اپنے بچے ساقط کردیں گی۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے۔ اپنی پیدائش میں غور کرنے سے یہ عقیدہ تمہیں بہت اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ مٹی سے نطفہ، نطفہ سے لوتھڑا، پھر گوشت کا ٹکڑا جس کی تخلیق کبھی مکمل ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ ایک متعینہ مدت کے لئے رحم مادر میں پڑا رہنا، پھر کمزور و بے کس بچہ کی شکل میں پیدا ہونا، پھر بھرپور جوانی کو پہنچنا، پھر قویٰ کی کمزوری کے ساتھ بڑھاپے کی منزل تک پہنچنا اس بات کا غماز ہے کہ قادر مطلق تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ زمین کو دیکھو! بنجر و ویران ہوتی ہے،بارش برستی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیتیاں اور باغات اگنے لگتے ہیں اور پھر پھلنے پھولنے اور لہلہانے لگتے ہیں۔ اس سے اللہ کی قدرت کا اندازہ کرکے سمجھ لو کہ وہ ہر چیز پر قوت رکھتا ہے۔ پھر قیامت کے مزید تذکرہ کے ساتھ نیک و بدکا انجام ذکر کیا اور پھر حرم شریف اور کعبة اللہ میں حاضری، عبادت اور اعتکاف سے روکنے والوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت اور ان کے عمل کو ظلم و الحاد قرار دے کر دردناک عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے شاندار کارنامہ کا تذکرہ اور نماز اور طواف کرنے والوں کے لئے اسے پاک و صاف رکھنے کا حکم ہے اور لوگوں کو دنیا بھر سے کعبة اللہ کی زیارت کے لئے آنے کی دعوت دینے کا حکم ہے۔ حج کے عظیم الشان اجتماع میں قربانی اور صدقہ و خیرات سے غرباءو مساکین کی کفالت اور تجارت اور کاروبار کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے تمام افراد کے مفادات و منافع کی حفاظت کی نوید ہے۔ پھر اہل ایمان کے دفاع کے نظام سماوی کا تذکرہ اور مو¿ منین کو جہاد کے لئے قدم اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جب ظلم و ستم حد سے تجاوز کرنے لگے تو مسلمانوں کو اپنے دفاع اور تحفظ کے لئے قتال فی سبیل اللہ کا عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اللہ اپنے ایسے بندوں کی مدد ضرور کیا کرتے ہیں جو زمین پر بااختیار ہوکر نماز اور زکوٰة کے نفاذ کے ساتھ ہی اچھائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کا نظام نافذ کرتے ہیں۔ پوری انسانیت کے لئے محمد رسول اللہ کے بشیر و نذیر ہونے کا بیان کرتے ہوئے مومنین و منکرین کے انجام کا تذکرہ ہے۔ پھر شیاطین کی دستبرد سے دین اسلام کے محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔ پھر کفر کی ذہنیت کی وضاحت ہے کہ وہ دلائل پر یقین نہیں رکھتے۔ ڈنڈے کے یار ہیں۔ قیامت کا جھٹکا ہی انہیں ایمان کا راستہ دکھا سکے گا۔ ہجرت اور اس کے لازمی نتیجہ جہاد کے ذریعہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے والے یا طبعی موت مرنے والوں کے لئے بہترین رزق اور پسندیدہ رہائش یعنی جنت میں داخلہ کی نوید سنائی گئی ہے۔
      پھر کائناتی شواہد میں غور و خوض کرکے اللہ کی وحدانیت تسلیم کرنے کی تعلیم ہے۔ موت اور زندگی اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر امت کو علیحدہ نظام حیات دیا گیا ہے۔ اختلاف کرنے کی بجائے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جب انہیں قرآن سنایا جاتا ہے تو ان کے چہروں پر مردنی چھاجاتی ہے۔ انہیں بتائیے کہ تمہارے لئے اس سے بھی بدترین خبر جہنم کی آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں کے لئے کررکھا ہے۔ پھر معبود حقیقی اور معبودان باطل کے امتیاز کے لئے معرکة الآراءمثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ جن کی پرستش کرتے ہو وہ ایک مکھی پیدا کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ مکھی جیسی کمزور ترین مخلوق اگر ان کے کھانے کا کوئی ذرہ اٹھا کر لے جائے تو یہ سب مل کر اس سے واپس لینے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ طالب و مطلوب سب کمزور اور ضعیف ہیں۔ یہ لوگ انبیاءور سل کا انکار کرکے اللہ کی ناقدری کررہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے منتخب نمائندے ہیں۔ اللہ کے راستہ میں جہاد کا حق ادا کردو۔ اس نے تمہارے دین میں کوئی مشکل احکام نہیں دیئے ہیں۔ ملت اسلامیہ ہی دراصل ملت ابراہیمی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت مسلمہ کے اعمال پر گواہ بنیں گے اور امت مسلمہ دوسری امتوں کی گواہی دے گی۔ لہٰذا تم نماز اور زکوٰة دیتے رہو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ وہ بہترین حمایتی اور بہترین مددگار ہے۔



      Similar Threads:





    2. #2
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      BDunc's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      8,431
      Threads
      678
      Thanks
      300
      Thanked 249 Times in 213 Posts
      Mentioned
      694 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      120

      Re: اقترب للناس- ١٧

      Good work


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •