سب سے پہلے تو میں اس قدر اچھے موضوع کو زیر بحث لانے پر داد دینا چاہوں گا - نہایت ہی عمدہ اچھوتا موضوع چنا ہے روبی سسٹر نے - جس پر تو دفتر لکھے جائیں تب بھی کم ہیں
انسان کی تکالیف کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے - ایک وہ جو الله کی طرف سے امتحان ہوتی ہیں اور ایک وہ جو انسان کی شامت اعمال کی وجہ سے اس کے گرد گھیرا ڈالتی ہیں - جب انسان الله کی طرف سے امتحان میں ہوتا ہے تو الله کے قریب ہوتا ہے اور جب شامت اعمال کی وجہ سے نشانہ بنتا ہے تب الله سے دور ہوتے ہویے دوسرے زرائع سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے معاملات اور الجھ جاتے ہیں اور انسان مزید سزاوار ٹھہرتا ہے -
ہم میں سے ہر شخص ہر دور میں ایسے حالات سے گزرتا ہے - میں اپنے آپ پر نظر ڈالوں تو کئی گھاٹیاں نظر آتی ہیں جن کو عبور کر کے میں یہاں تک آیا ہوں - میری نظر میں اصل سوال یہ ہوگا کہ اگر کچھ ایسا پیش آ جائے تو انسان کا رویہ کیسا ہونا چاہے ؟ مجھے جب ایسے حالات پیش آتے ہیں تو میں توبہ ، شکر اور صدقہ میں مزید اضافہ کرتا ہوں- الله سے صبح شام اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہوں اور الله کے ساتھ مزید اکیلے سیشن منعقد کرتا ہوں (مطلب نماز کے علاوہ گپ شپ کے لئے وقت نکالنا )- جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چاہے امتحان ہو یا مصیبت ، دونوں کو رخصت لینی ہی پڑتی ہے -
اب رہا سوال انسان ک ہاتھوں انسان کی تذلیل کا تو چونکہ جیسا انسان کا اپنا رویہ ہوتا ہے ویسا ہی دکھ اس پر مسلط کیا جاتا ہے وہ اب کسی انسان کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے - کسی بیماری کی شکل میں بھی یا پھر کسی سانحے کی شکل میں -
بہر حال میں ایک بار پھر روبی سسس کی اس دور کی کوڑی کی داد دوں گا اور تمام ممبران کی دور کی کوڑیوں کا منتظر - امید ہے اس بار ڈھیر سارا سیکھنے کو ملے گا -
الله آپ سب کو اپنی امان میں رکھیں اور من چاہی خوشیوں اور چاہتوں سے نوازیں - آمین
Bookmarks