ہماری نمازیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟
مفتی عطاء الرحمن صاحب قاسمی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرۂ کے شروع میں اہل تقویٰ کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ نمازوں کو قائم فرماتے ہیں :اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ، وہ لوگ جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں "۔
"اقامت ِ صلوٰۃ"کے معنی صرف نماز پڑھنے کے نہیں ،بلکہ اسے اس کے تمام فرائض وواجبات وسنن و مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اداکر نے کا نام "اقامت"ہے ۔
(روح المعانی :۱/۱۵۶)
دوسری جگہ اللہ رب العزت نے جن اہل ایمان کے لئے ابدی کامیابی کا اعلان فرمایا ہے،ان کی ایک اہم صفت یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کے اندر خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ۔
چنانچہ ارشاد پاک ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ oالَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِھِمْ خَاشِعُوْنْ o
"تحقیق اہل ایمان کامیاب ہوگئے ،جوکہ اپنی نمازوں کے اندر خشوع اختیار کرنے والے ہیں "۔
خشوع کا لفظی معنی ہے سکون ،مراد یہ ہے کہ دل میں بھی سکون ہو (یعنی غیرا للہ کے خیال سے دل کو پاک رکھے اور اس کی طرف اپنے ارادہ اور قصد سے توجہ نہ دے )اور بدن کے ظاہری اعضاء بھی پر سکون ہوں کہ بے فائدہ اور فضول حرکتیں نہ کرے ۔
(بیا ن القرآن :۲/۵۳۳)
علماء فرماتے ہیں کہ سنن و مستحبات کی رعایت اور مکروہات وممنوعات سے اجتناب بھی خشوع میں داخل ہے ۔
(کشاف)
نمازکے اندر خشوع فرض ہے یا نہیں ؟اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔خاتمتہ المحققین علامہ ابو الفضل شہاب ا لدین سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نماز کے اندر خشوع فرض تو نہیں کہ اس کے بغیر نماز ہی نہ ہو، البتہ یہ بات ضروری ہے کہ نماز کی قبولیت کے لئے شرط ہے کہ اس کے بغیر نماز کو قبولیت کا شرف حاصل نہیں ہوتا"۔
(روح المعانی: ۱۸/۱۸۱)
آج ہماری نمازوں کا کیا حال ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں ، ہماری غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نماز میں بہت سی ایسی غلطیاں کرجاتے ہیں کہ بعض دفعہ تو ان غلطیوں سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور بعض مرتبہ فاسد تو نہیں ہوتی ،تاہم قبولیت کے درجے سے نکل کر ناقص ہونے کی وجہ سے منھ پر مار دی جاتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فر مایا "جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے، وضو بھی ا چھی طرح کرے،خشوع و خضوع سے بھی پڑھے،کھڑا بھی پورے وقار سے ہو، پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح اطمینان سے کرے، تو وہ نمازنہایت روشن چمکدار بن کر جاتی ہے اور نمازی کو دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ تیری بھی ایسی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی اور جو شخص نمازوں کو بر ی طرح پڑھے وقت کو بھی ٹال دے اور وضوبھی اچھی طرح نہ کرے ،خشوع میں بھی کمی ہو، رکوع سجدہ بھی اطمینان سے اچھی طرح ادانہ کرے، تو وہ نمازبری صورت سے سیاہ رنگ میں بدعادیتی ہوئی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے بھی ایساہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا،اس کے بعد وہ نمازپرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منھ پر ماردی جاتی ہے"۔
(طبرانی)
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جواچھے طریقے سے وضو کرکے ،نمازکو بہتر طور پر، اس کے سنن ومستحبات کی رعایت کر تے ہوئے ادا فرماتے ہیں کہ اللہ کی اہم ترین عبادت اس کے لئے دعا کرتی ہے اور حق تعالیٰ شانہ کی بار گاہ میں اس کی سفارشی بنتی ہے !!
لیکن ایسے بانصیب لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ،عام طور پر ہماری نماز خشوع سے یکسر خالی ایک رسمی کاروائی بن چکی ہے، بچپن سے نمازکو رٹ لیتے ہیں ،پھراس کے فرائض وواجبات اور سنن ومستحبات کابھی علم ہو جاتاہے، لیکن عملی طور پر ان کی ادائیگی کی زحمت نہیں کرتے اور یوں ہی تہی دامن رہ کر اپنی نمازوں کو دریا برد کرتے رہتے ہیں ۔
جب آدمی اپنا وقت خراب کرے ،کاروبار چھوڑے ،مشقت بر داشت کرے تو اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ اسے زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی بنائے ،نہ کہ اسے ثواب کے بجائے وبال کا سامنا کرنا پڑے ۔
ہمارافرض بنتا ہے کہ جیسے ہم نے نماز کے الفاظ زبانی یاد کئے اور سیکھے ہیں تو اسی طرح نماز کے صحیح اور مسنون طریقے کو بھی کسی مستند عالم اور معتبر مفتی سے عملی طور پر سیکھیں ، بلکہ دینی اداروں میں وضوونماز کے مسائل سے متعلق باقاعدہ عملی مشق کا اہتمام ہونی چاہئے تاکہ نماز جیسی اہم عبادت صحیح طور پراداہو۔
ورنہ بسا اوقات ایساہوتاہے کہ ہم توبزعمِ خویش اپنی نمازوں کودرست سمجھتے ہیں اور اسی میں عمر کا ایک طویل حصہ گزار لیتے ہیں ، لیکن درحقیقت وہ نمازیں بے جان اور روح سے خالی ہوتی ہیں اور ثواب کے بجائے عقاب کا سبب بنتی ہیں ۔
حضرت مجددالف ثانی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے مکاتیب میں نماز کے اہتمام پر بہت زور دیاہے اور معمولی معمولی آداب کی رعایت کو بھی ضروری قرار دیا ہے کہ وہ بھی حکمت اور فائدے سے خالی نہیں ، مثلاًسجدہ میں انگلیاں ملانا اور رکوع میں علٰحدہ رکھنا وغیرہ ۔
ہمارا دین دار طبقہ ہو یا گنوار ،سمجھ دار ہو یاجاہل، بہت سی ایسی کوتاہیوں میں مبتلاہے جو نماز کی رونق وزینت کو گھٹا دیتی ہیں ، پھر طرفہ یہ ہے کہ اسے ان لغزشوں کا احساس بھی نہیں کہ ان سے بچنے کی کوشش کرے ۔
ہماری کوتاہیوں کی فہرست تو کافی طویل ہے ، لیکن یہا ں یاد دہانی کے طور چند ایسی غلطیوں کی نشان دہی کردی جاتی ہے ،جن کی طرف عام طور پر نمازی کا ذہن نہیں جاتااور یوں کبھی تو وہ اپنی نمازوں پرملنے والے اجر کو ضائع کردیتاہے اور کبھی ثواب میں حد درجہ کمی لے آتا ہے ،پھر چونکہ نماز کی قبو لیت کے لئے مسنون وضو کر نا بھی ضروری ہے،جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا،اس لئے پہلے وضو سے متعلق چندلاپرواہیوں کاتذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتاہے ۔
۱۔ وضو کرتے وقت شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی ،حالانکہ بسم اللہ پڑھنا سنت یا مستحب ہے ۔
۲۔ دونوں ہاتھ گٹوں تک تین مرتبہ دھونا سنت ہے ،لیکن پانی کی ٹونٹی سے وضو کرتے وقت اس کا خیال نہیں رکھا جا تا ۔
۳۔ ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتے ہوئے استیعاب (یعنی پورے عضو پر پانی بہانا )بھی سنت ہے، لیکن ہم یہ کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو پورے عضو پر پانی بہا دیتے ہیں اور پھر دوبارہ چلو میں پانی لے کر تین بار ہاتھو ں پر اچھالنا کافی سمجھتے ہیں ،دوسری اور تیسری مرتبہ استیعاب کا خیال نہیں ہوتا ۔
۴۔ چوتھائی سر کا مسح کر نا جب کہ پورے سر کا مسح کرنا سنت ہے ،لیکن اس سنت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور فرض پر ہی عمل کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔
۵ عوام گردن کے مسح کے ساتھ گلے کو بھی شریک کر لے تے ہیں ،حالانکہ گلے کا مسح کر نا بدعت اور ناجائز ہے ۔
۶۔ گردن پر مسح کے بعد کئی لوگ انگلیوں کے خلال کے ساتھ ساتھ کہنیوں کا بھی مسح کر تے ہیں ، جب کہ یہ غیر ثابت فعل اور غلط حرکت ہے ۔
۷۔ پاؤں کو دھوتے ہوئے بھی تین مرتبہ دھونے کا لحاظ نہیں کرتے ،حالانکہ تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اگر تین مرتبہ دھوئے بھی تو استیعاب (پورے عضو پر پانی بہانے )کی طرف دھیان نہیں جاتا ۔
۸۔ ہاتھوں اور انگلیوں کا خلال کر نا بھی سنت ِمؤکدہ ہے ،لیکن عام طور پر اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا ۔
۹۔ اسی طرح غسل کرتے وقت اس کے مسنون طریقے کا خیال نہیں رکھا جاتا ،بلکہ کیف ما اتفق غسل کرلیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ تو فرض کے چھوٹ جانے پر غسل بھی نہیں ہوتا اور آدمی ناپاک رہتا ہے ۔مثلاً غسل سے پہلے وضو عموماً نہیں کیا جاتا ،ناف،بغل وغیرہ کا کچھ حصہ بعض مرتبہ جلدی میں غسل کر نے کی وجہ سے خشک رہ جاتا ہے ۔
یہ وضو وغسل سے متعلق بات ہوئی ،اسی طرح نماز پڑھنے کے دوران بھی ہم بہت سی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں ، مثلاً
٭ "نیت"دل کے ارادہ کا نام ہے ،زبان سے الفاظ کہنا ضروری نہیں ،البتہ اگر کوئی وساوس کی کثرت اور خیالات کے غلبہ کا شکار ہونے کی وجہ سے زبان سے نیت کر تا ہے تو یہ بہتر ہے ،لیکن صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ میں ظہر یا عصر کے فرض پڑھتا ہوں ،یاسنت یا وتر پڑھتا ہوں اور اگر امام کے پیچھے ہو تو یہ اضافہ کردے کہ امام کے ساتھ ظہر یا عصر کے فرض پڑھتا ہوں ۔
٭ اتنی لمبی نیت کر نا کہ امام قرأت شروع کر دے اور یہ صاحب نیت کا اظہار ہی کرتے رہیں مناسب نہیں مختصر الفاظ کافی ہیں
پھر بعض مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ عربی میں نیت کے الفاظ یاد کئے ہوئے ہوتے ہیں ،انہیں دُہرانا شروع کردیتے ہیں ،جب کہ ان کے معنی کا کچھ علم نہیں ہوتا یہ بھی درست بات نہیں ۔
٭ بعض غیر محتاط ائمہ حضرات "اللہ اکبر"کو بہت کھینچ کر پڑھتے ہیں ،جس کی وجہ سے بعض مقتدی امام سے پہلے تکبیر تحریمہ ختم کر دیتے ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں ،کیونکہ امام سے پہلے تکبیر تحریمہ کہنے سے نماز نہیں ہوتی ۔
٭ بعض دوستوں نے بچپن میں جو رٹاہوتا ہے اسے ہی پڑھتے رہتے ہیں ،مثلاًثناء،تعوذ اور تسمیہ بھی کہہ دیتے ہیں حالانکہ وہ تو آنے والی عبارتو ں کے نام ہیں ،انہیں پڑھنا درست نہیں ۔
٭ سورہ فاتحہ کے شروع میں ہر رکعت میں امام اور منفرد کے لئے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھناسنت ہے اور بعض حضرات نے واجب بھی کہا ہے لیکن اس سے غفلت بر تی جاتی ہے ،البتہ مقتدی نہیں پڑھے گا ۔
٭ مقتدی کا امام کے پیچھے قرأت کرنا مکروہ تحریمی ہے ،خواہ امام آہستہ آواز میں قرأت کرے یا بلند آواز سے، (یعنی سری نماز ہو یا جہری) بعض حضرات سری نماز میں امام کے پیچھے تلاوت کرتے رہتے ہیں ،یہ درست نہیں ۔
٭ سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت شروع کرنے سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا مستحب ہے ،لیکن اس کی رعایت بہت کم لوگ کرتے ہیں ۔
٭ اکثرحضرات بہت جھک کر رکوع کرتے ہیں او ر ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ دیتے ہیں ،انگلیوں سے پکڑ تے نہیں ،جب کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں کھول کر گھٹنوں کو پکڑ لیا جائے ،کمر بالکل سیدھی ہو اور پنڈلیوں میں خم نہ ہو ۔
٭ سجدوں کی طر ف جاتے ہوئے کمر بالکل سیدھی رکھنی چاہئے ،گھٹنے زمین پر رکھنے سے پہلے کمر میں خم نہ آنے پائے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھے عام طور پر جھک کر سجدہ میں جاتے ہیں ،جس سے تکرار رکوع کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
٭ یہ بات بھی علم میں ہونی چاہئے کہ قرأت کے سواء نماز کے تمام وظائف ،تسبیحات ،تشہد درود شریف وغیرہ انشا ء پڑھے جاتے ہیں کہ بندہ ان الفاظ کے ذریعے سے مخاطب ہوتا ہے، البتہ قرأت حکایۃً ہوتی ہے کہ بندہ اس کی تلا وت کر تا ہے اوراپنے رب کا کلام دہرا رہا ہوتا ہے ،اس سے وہ کسی سے مخاطب نہیں ہوتا ،تاہم سورۂ فاتحہ میں انشاء بھی ملحوظ ہوتا ہے ۔
نوٹ : تشہد میں السَّلا مُ عَلیْکَ اَیُّھَا ا لنَّبِیْ میں بھی انشاء آپ ﷺ سے خطاب ہے ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ا نمازی کے پاس موجود ہوتے ہیں ،بلکہ یہ خطاب خط کے خطاب کی طرح ہے کہ ہم خط میں السَّلا مُ عَلَیْکُمْ لکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مرسل الیہ وہا ں موجود ہے ،بلکہ معنی یہ ہوتا ہے کہ جب خط اس تک پہونچے گا توخطاب ہوجائے گا، تو اسی طرح جب یہ سلام فرشتوں کے ذریعے آپ اتک پہنچے گا تو خطاب ہوجائے گا ۔
٭ سجدہ میں دونوں پاؤکی انگلیاں قبلہ رخ رکھنا سنت ِمؤکدہ ہے ،اس کے خلاف مکروہ ہے ،اس سے غفلت کی انتہا ہے ،بچپن سے چونکہ اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی، اس لئے بعد میں عادت نہ ہونے کی وجہ سے انگلیوں کا قبلہ رخ کرنا انتہا ئی مشکل معلوم ہوتاہے۔
٭ سجدہ میں ساری انگلیاں بمعہ انگوٹھا بند اور قبلہ رخ ہونا مسنون ہے،اس کی طرف بھی عمو ماً توجہ نہیں ہوتی ۔اگر انگلیاں بند بھی ہوں تو انگوٹھا جدارکھنے ہیں ۔
٭ تشہد کی حالت میں بھی دائیں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا مسنون ہے ،بلکہ بائیں پاؤں کی انگلیاں بھی بقدر استطارت قبلہ رخ رکھنا چاہئیں ۔
٭ تشہد میں اشارہ کرتے وقت بعض دوست تو حلقہ نہیں بناتے اور بعض حلقہ تو بناتے ہیں ،مگر اشارہ کے بعد انگلی کو گرادیتے ہیں ،جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ انگلی اور انگوٹھے کے سروں کو ملا کر حلقہ بنایا جائے ،پھر اشارہ کیا جائے اور اس کی بعد انگشت شہادت کو بالکل گرانا نہیں چاہئے ۔بلکہ قدرے جھکا دینا چاہئے۔
٭ سلام پھیر تے ہوئے کئی حضرات سامنے نظر رکھتے ہیں ،جب کہ مستحب یہ ہے کہ نظر کندھوں پرہو ۔
٭ امام سلام پھیر دے اور مقتدی نے تشہد نہ پڑھا ہو تو مقتدی پر تشہد پورا کرنا اور درودچھوڑکر امام کی اتباع کر نا واجب ہے، تشہد کو چھوڑنا مکروہ تحریمی ہے ،درود نہ پڑھے ۔
٭ اسی طرح تشہد پڑھ لیا ہو تو درود میں مشغول ہو کر سلام میں تا خیر کرنا یا رکوع و سجدہ کی تسبیحات پوری کر نے کے لئے امام سے پیچھے رہنا مکروہ تحریمی ہے اکثر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور امام رکوع وسجدہ سے اٹھ جاتا ہے ،لیکن لوگ تسبیح کی مقدار پوری کر نے کے لئے سجدہ و رکوع میں رہتے ہیں ۔
٭ امام مقتدی کے تشہد پڑھنے سے قبل کھڑا ہوجائے تو مقتدی تشہد پورا کرکے اٹھے ،تشہد ناقص چھوڑکر امام کی اتباع میں کھڑا ہونا درست نہیں ۔
٭ چار رکعت سنت ِغیر مؤکدہ یا نفل میں دورکعت پر درود شریف اور دعا پڑھنا اور تیسری رکعت کے شروع میں ثناء پڑھنا افضل ہے ۔سنت ِمؤکدہ میں دورکعت پر درود شریف نہ پڑھے ۔اگر سہواًپڑھ لیا تو سجدۂ سہو واجب ہوگا ۔اس کی طرف بھی بیشتر ذہن نہیں جاتا ۔
٭ مسبوق امام کے قعد ۂ اخیرہ میں درود شریف اور دعانہ پڑھے ،بلکہ بہتر یہ ہے کہ تشہد ٹھہر ٹھہر کر پڑھے ،تاکہ امام کے سلام کے ساتھ تشہد سے فراغت ہو اور اگر تشہد جلدی ختم کرلے تو اس کے بعد خاموش رہے یا کلمۂ شہادت یا تشہد کا تکرار کرتا رہے ۔جب کہ ہمارا یہ حال ہے کہ تشہد کے ساتھ ساتھ درود اور دعاپڑھ کر ہی دم لیتے ہیں ۔
٭ مسبوق کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ امام کے دونوں طرف سلام پھیر نے کے بعد اتنی تاخیر سے اٹھے کہ امام کے ذمے سجدۂ سہو نہ ہونا معلوم ہوجائے ۔جب کہ یہاں صورت ِحال یہ ہے کہ امام نے ایک سلام پھیرا نہیں ہوتا کہ سب کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
٭ سجدہ میں جاتے ہوئے اکثر کپڑا سمیٹ لیتے ہیں ، جب کہ یہ مکروہ تحریمی ہے ۔
٭ مسبوق امام کے ساتھ سجدۂ سہو کر تے وقت سلام نہ پھیرے ،بلکہ بغیر سلام کے سجدہ کرے ۔اگر مسبوق نے جہلاً(یعنی مسئلہ کی جہالت کی وجہ سے ) سلام پھیر دیا ،حالانکہ اسے اپنا مسبوق ہونا یا دتھا کہ میرے ذمہ کچھ رکعتیں باقی ہیں تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی ۔
البتہ اگر سہواً(یعنی بھول کر)سلام پھیرا کہ اسے اپنا مسبوق ہونا یاد نہ تھا ،وہ یہ سمجھا کہ میرے ذمہ کوئی رکعت نہیں تو نمازفاسد نہ ہوگی ۔
جہل اور سہو کافر ق خوب ذہن نشیں کرلینا چاہئے، اکثر جہل کی وجہ سے سلام پھیر کر نمازکو فاسد کردیتے ہیں اور انہیں علم بھی نہیں ہوتا ۔
٭ مسبوق نے امام کی نماز ختم ہونے پر بھول کر سلام پھیردیا تو اگر امام کے لفظ سلام کی میم کے ساتھ مسبوق نے بھی سلام کی میم کہہ لی تو اس پر سجدۂ سہو نہیں ،اس سے تاخیر ہوگئی تو سجدۂ سہو واجب ہے ،عموماً مقتدی کا سلام امام کے سلام کے بعد ہوتا ہے ،اس لئے سجدۂ سہو لازم ہے ، یہاں بھی ہماری جہالت آڑے آتی ہے اور سجدۂ سہو لازم ہونے کے باوجود سجدہ نہیں کرتے اور یوں اپنی نمازیں غارت کرتے رہتے ہیں ۔
٭ مسبوق سے اگر بقیہ رکعتیں اداکر تے ہوئے کوئی غلطی ہو جائے جس سے سجدۂ سہو کرنا پڑتا ہے تو اس پر سجدۂ سہو کرنا لازم ہے ،اس مسئلہ سے ناواقفی بھی نمازکو ناقص کردیتی ہے ۔
٭ ہماری عادت بن چکی ہے کہ نماز میں کھجلائے بغیر مزہ نہیں آتا ،جب کہ بلا ضرورت ایک بار بھی کھجلا نا مکروہ تحریمی ہے اور اگر ایسی ضرورت پیش آجائے کہ کھجلائے بغیر یکسوئی نہ ہو تو ایک دوبار کھجلا نا بغیر کراہت کے جائز ہے ۔اور بیالیس حروف مقروۂ کے بقدر وقت میں تین بار بہ ضرورت کھجلانا بھی نمازکو فاسد کردیتا ہے، جب کہ ہر مرتبہ کھجلانے کے لئے ہاتھ اٹھا یا جائے ۔
٭ عورتیں گھروں میں رہنے کی وجہ سے مسائلِ نماز سے نابلد ہوتی ہے، مردوں پر لازم ہے کہ وہ عورتوں کو نماز کا صحیح مسنون طریقہ سکھا کر انہیں اس کی تعلیم دیں اور ان سے اس کی عملی مشق کروائیں ۔
یہ تو وہ چند اہم کوتاہیاں تھیں جو ہمارے روز مرہ کے معمول میں داخل ہو چکی ہیں اور ان کی درستگی کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی ۔
بیشک نماز ایک بڑی دولت ہے ،قربِ خداوندی کا ذریعہ ہے ،مومن کا نور ہے اور جنت کی کنجی ہے ،بے حیاءی کے کاموں اور بری باتوں سے روکتی ہے ،لیکن اس وقت جب کہ اسے اس کی تمام شرائط و آداب کا لحاظ کرتے ہوئے بجالا یاجائے ،ورنہ تو حدیث میں آتاہے کہ آدمی ساٹھ برس تک نماز پڑھتا ہے ،مگر ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی کہ کبھی رکوع اچھی طرح کرتا ہے تو سجدہ پورا نہیں کرتا ،سجدہ کرتا ہے تو رکوع پورا نہیں کرتا ۔
امامِ ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ نگاہ جمائے رکھنا اور رکوع کی حالت میں ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع پیدا کرتاہے اور اس سے نماز میں دلجمعی نصیب ہوتی ہے ۔
جب ایسے معمولی معمولی آداب بھی اس قدر فائدے اپنے اندر رکھتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہئے کہ بڑے آداب اور سنتوں کی رعایت ہمیں کس قدر فائدہ بخشے گی ۔
صوفیہ کرام نے تو یہاں تک لکھا کہ نماز حقیقت میں اللہ جل شانہ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہم کلام ہونا ہے ،جو غفلت کے ساتھ ہوہی نہیں سکتا ۔ تو غفلت کے ساتھ پڑھی ہوئی نمازوں کی طرف اللہ پاک کیسے توجہ فرمائیں گے ؟!
حق تعالیٰ شانہ سے دعا ہے کہ ہمیں نمازوں کو صحیح طور پر سیکھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بار گاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے ۔آمین یا رب العٰلمین
Similar Threads:
Bookmarks