google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 4 of 4

    Thread: اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!

      اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!


      زبیر وحید
      اس طریقے سے جرمن فوج کے رنگروٹوں نے خوب فائدہ اُٹھایا ***** مشہور ناول نگار ایلڈوئس ہکسلے ( Huxley Aldous) نے اپنے بچپن کے تقریباً اٹھارہ مہینے مکمل اندھے پن میں گزارے تھے اور وہ صرف بریل کی مدد سے پڑھ لکھ سکتا تھا۔ ہکسلے کی بینائی اگرچہ جزوی طور پر بحال ہو گئی، لیکن اس کے بعد نظر کی طاقتور عینک کے استعمال کے باوجود پڑھتے وقت وہ بہت زیادہ تھکن اور تنائو محسوس کرتا تھا۔1939ء میں اس کی دیکھنے کی صلاحیت اچانک خراب ہو گئی۔ اسے تعجب ہوا کہ کیسے وہ اپنے کام نمٹا سکے گا، کیونکہ اسے ممکنہ حد تک محسوس ہوتا تھا کہ وہ مکمل طور پر نابینا ہو چکا ہے۔ اس صورت حال میں اس نے ہر پہلو پر غور کیا کہ انسانی آنکھیں اتنی زد پذیر کیوں ہیں کہ کسی بھی حملے سے بہت جلد متاثر ہوتی ہیں اور پھر دوبارہ تندرست نہیں ہو پاتیں؟ جب کہ جسم کے دوسرے اعضاء خود کار میکانیت سے درست ہو جاتے ہیں تو پھر آنکھیں کیوں نہیںدرست ہو تیں؟ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں خود بخود جڑ جاتی ہیں، پھٹی ہوئی جلد مرمت ہو جاتی ہے اور خون کے خلیے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی آنکھوں پر یہ فارمولا کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ اس نقطے کے پیشِ نظر ہکسلے نے دیکھنے کی تعلیم نو کے متعلق سنا جس کے پیشرو نیویارک کے ایک معالج چشم ڈاکٹر ڈبلیو۔ ایچ بیٹس (W.H.Bates) تھے۔ اس نے بیٹس کی تکنیک کو اپنایا اور کامل اعتماد سے ورزش کرتا رہا اور چند مہینوں بعد اس کا نتیجہ وہ یوں بیان کرتا ہے کہ صرف دو مہینے کے عرصے میں میں چشمے کے بغیر پڑھنے کے قابل ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بغیر تھکاوٹ یا تنائو کے ! دائمی تنائو اور وقتی تھکان ماضی کی بات بن کر رہ گئی۔ بیٹس کے طریقہ کار کو اپنا کر بہت سے لوگ بینائی کو بہتر بنا چکے ہیں اور چشموں سے نجات حاصل کر چکے ہیں۔ اس طریقے کی کامیابی کی وجہ عموماً یہ خیال کی جاتی ہے کہ بصری نقائص اکثر بنیادی طور پر عملی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے نہ صرف ان کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کا بآسانی علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ آنکھوں کی خرابی کی رسمی وجہ اس میں عملی طور پر عضوی تبدیلی کا پیدا ہونا ہے۔ نظر کے چشمے انعطافی درستگی کے لیے تجویز کیے جاتے ہیں جو آنکھوں کے بوجھ کو کم کرتے ہیں۔ بیٹس کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا تسلسل اکثر معکوس ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں تنائو اکثر دیکھنے کی صلاحیت میں خرابی کے نتیجے کے مقابلے میں اس کا سبب ہوتا ہے۔آ نکھوں کا علاج چشمے کے استعمال کے بجائے تنائو کو کم کر کے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چشمے بینائی کے لیے بیساکھیوں کا کام دیتے ہیں۔ یہ بینائی میں نقص کی وجہ کو دور نہیں کرتے چنانچہ ان کو استعمال کرنے والوں کو ہمیشہ ان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آنکھوں کے نازک نظام کو ان کے استعمال میں مناسب حد تک کمی لا کر بہتر بنایا جا سکتا ہے جس سے جسم کو آنکھوں کی خرابی کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس نظریے کی کامیابی کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہزاروں لوگوں نے اس طریقہ کار کو اپنایا اور انہیں اس سے بہت زیادہ فائدہ بھی ہوا۔ جرمنی میں بہت سے seeing school کھولے گئے۔ 1934ء میں ایک جرمن سرجن نے بتایا کہ آنکھوں کے استعمال کی تربیت سے فوج کے بہت سے رنگروٹوں کو فائدہ ہوا۔ ان کی بینائی میں کافی حد تک بہتری آئی اور ان کی نشانہ بازی کی صلاحیت چشموں کا استعمال ترک کرنے کے باوجود بہتر ہو گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں، انہیں فوراً چشمہ نہیں لگوانا چاہیے بلکہ پہلے آنکھوں کے استعمال میں کمی لا کر انھیں بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ صرف یہ سیکھ کر کہ اپنی آنکھوں کو کیسے قابلیت سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اچھا خاصا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بہت زیادہ تنائو کی حالت میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے آنکھوں پر بوجھ پڑتا ہے۔ آنکھوں کی بہترین صحت کے لیے شرطِ اول کو جاننا ضروری ہے اور یاد رکھیے کہ سکون شرط اول ہے،یہ ایک اور طرح کا نفسی حرکی فن ہے، جیسے کہ جمناسٹک، گائیکی اور گولف ہے۔ جب ہم بہت کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بہت زیادہ تنائو ہوتا ہے اور اس کا اثر ہماری کارکردگی پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو غصے میں دیکھیں گے تو غصے میں انسان اندھا ہو جاتا ہے۔ ہمیں آنکھوں کو صرف دیکھنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ ان کو دیکھنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ آنکھوں کے غلط استعمال میں نقصان ہمارا اپنا ہی ہو گا۔ کسی بھی آرٹ گیلری میں آویزاں تصویر کو آگے بڑھ کر دیکھنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ دور کھڑے ہو کر دیکھی جائے۔ تصویر کو اس انداز سے دیکھیں کہ یہ آپ کی جانب بڑھے۔ ایک مشہور شخص کا قول ہے کہ دریا کو مت دھکیلیں اسے اپنی ڈگر پر بہنے دیں۔آنکھوں پر تنائو کبھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ صاف دیکھنے کے لیے ہمیں اپنی آنکھوں کو متحرک رکھنا چاہیے۔ اگر ہماری آنکھیں کسی شے پر کافی دیر جمی رہیں تو ہمارے ادراک کا عمل ہلکا پڑ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم انگلیوں کو میز پر رکھیں تو تھوڑی دیر بعد ہمیں اس بات کا احساس نہیں رہتا کہ ہماری انگلیاں کہاں ہیں۔ ان دونوں قسم کے واقعات میں انگلیوں یا آنکھوں کی حرکت ہماری آگاہی میں اضافہ کرتی ہے۔آنکھوں کے متحرک رہنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ ہم 130ملین سے زائد روشنی کے لیے حساس خلیوں ( Cells Receptor) کی مدد سے دیکھتے ہیں جو راڈز (Rods) کونز (Cones) کہلاتے ہیں۔ یہ خلیے آنکھوں میں یکساں طور پر منقسم نہیں ہوتے۔ پردۂ چشم کی بیرونی جانب راڈز کثرت سے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے مدھم روشنی میں بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔ رات کے وقت جس شے کو ہم صاف دیکھنا چاہتے ہیں اسے دیکھنے کے لیے ہمیں محیطی بصارت (Vision Peripheral) کی ضرورت ہوتی ہے۔ پردہ بصارت کے درمیانی حصے میں بڑی تعداد میں کونز (Cones) ہوتے ہیں۔ جو دن کی روشنی میں دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب ہم زرد نقطہ (Lutea Macula) پر نظر مرکوز کرتے ہیں تو ہمیں تیز بصارت حاصل ہوتی ہے، یعنی ہم بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ زرد نقطہ پردہ چشم کی پچھلی جانب موجود ہوتا ہے جہاں پر کونز کا زیادہ ارتکاز ہوتا ہے اور راڈز مکمل طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔ پردہ چشم کے کچھ حصوں میں ایک عصبی ریشہ 100 مختلف الگ الگ راڈز اور کونز کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، لیکن زرد نقطہ پر ہر کون اپنا عصبی ریشہ رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم زرد نقطہ پر نظر کو مرکوز کرتے ہیں تو ہم بہت تفصیل کے ساتھ تصویر کو دماغ میں منتقل کرتے ہیں۔ صاف دیکھنے کے لیے ہمیں زرد نقطہ پر اپنی نظر کو بہتر بنانے کا فن سیکھنا چاہیے۔ ہم کسی نظارے کو مکمل طور پر ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتے لیکن ہمیں اس کی ایک مرکب تصویر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ٹی وی کی تصویر نقاط کے ڈھیروں تسلسل سے بنتی ہے۔ گھور کر دیکھنے سے آنکھوں کی آزاد تجزیاتی حرکت میں کمی آتی ہے۔ گھور کر دیکھنے سے بصارت کی تیز فہمی میں بھی کمی آتی ہے اور اس کے ساتھ ہم انتہائی کوشش سے دیکھنے سے زیادہ تنائو اور دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ ایلڈوئس ہکسلے اپنی تصنیف دیکھنے کا فن (The Art Of seeing) میں لکھتا ہے کہ گھورنے والی نظر ہمیشہ موضوع کو الٹ دیتی ہے۔ کیونکہ زیادہ دیکھنے کے بجائے، ایک شخص جو اپنے حسی اعضاء کو غیر متحرک کر چکا ہوتا ہے (حسی اعضاء کو غیر متحرک کرنا ایک ایسا عمل ہے، جس میں انسان اپنی قریبی باہمی توجہ بھی غیر متحرک کر دیتا ہے) اس سے اس کی دیکھنے کی قوت خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آنکھوں سے کرنے والے بہت سے کاموں میں آرام سے دیکھنے کے بجائے گھورنے اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس سے آنکھوں پر غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔ جب ہم کار چلاتے ہوئے، ٹیلی ویڑن دیکھنے کے دوران، کتاب پڑھتے ہوئے، یا سوئی دھاگے سے کوئی نفیس اور باریک کام کرتے ہوئے اپنی آنکھوں کو غیر عضویاتی انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ جس سے آنکھوں پر دبائو پڑتا ہے اور تنائو محسوس ہوتا ہے۔ عضلات ہمیشہ اس وقت تکلیف محسوس کرتے ہیں جب انھیں کافی دیر تک ایک ہی حالت میں سکڑے رہنا پڑے، جیسے کہ پین کو دیر تک پکڑے رکھنے، سوٹ کیس اٹھانے اور زیادہ دیر جھکے رہنے سے عضلات تھک جاتے ہیں۔ چلنے، تیرنے اور ناچنے جیسے قدرتی افعال میں عضلات پر نسبتاً کم تنائو ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی حرکات میں عضلات سکڑتے بھی ہیں اور سکون بھی حاصل کرتے ہیں۔ عضلات کا اس طرح متبادل حالتیں حاصل کرنا رگوں، ٹانگوں، بازوئوں، دل اور آنکھوں کے لیے بہت مفید ہے۔ آنکھوں کے ڈھیلے کی حرکت کو چھ عضلات کنٹرول کرتے ہیں۔ بغور نظر جما کر کافی دیر تک کام کرتے رہنے سے منشی روک (Writers camp) لاحق ہوسکتا ہے۔ اس تکلیف سے بچنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ آنکھوں کو ادھر ادھر گھمائیں۔ اگر ایسا کرنے سے بھی صورت حال میں فرق نہیں آتا تو کام کے وقفوں اور پڑھنے کے اوقات میں تبدیلی پیدا کر کے تنائو سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ آنکھوں سے کیے جانے والے کاموں کے دوران وقفوں سے نظریں ہٹا ہٹا کر عضلات میں مستقل سکڑائو سے پیدا ہونے والے درد کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی بات کا اطلاق آنکھوں کے اندر مژگانی عضلات ( Muscles Ciliary) پر بھی ہوتا ہے، جو آنکھوں کے عدسے کے خم اور نتیجتاً عدسے کی فوکس کرنے کی طاقت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جب ہم دیر تک کسی شے پر نظروں کو مرکوز رکھتے ہیں تو اس سے ان عضلات پر زیادہ دبائو پڑتا ہے۔ بینائی قدرت کا حسین ترین عطیہ ہے اس لیے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی قدرتی جسمانی نظام نے خود لیا ہوا ہے۔ آنکھوں کے جھپکنے کے عمل سے آنکھیں محفوظ رہتی ہیں اور ان میں پڑنے والی خاک اور ذرات صاف ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے جھپکنے کے دوران ایک نمکین مائع نکلتا ہے جو آنکھوں کی صفائی میں معاون ثابت ہوتا ہے، آنکھوں کے جھپکنے کا دورانیہ ایک سیکنڈ کے 3/10ویں حصے کے برابر ہوتا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھیں ایک منٹ میں اوسطاً 30 دفعہ جھپکتی ہیں۔ اس سے پردہ چشم کے خلیات کو سکون ملتا ہے۔ ٹکٹکی باندھ کر کام کرنے سے آنکھوں کے جھپکنے میں کمی آتی ہے۔ اس لیے کام کرتے وقت چاہیے کہ آنکھوں کو جھپکتے رہیں تا کہ غیر ضروری درد، تکلیف اور تنائو سے بچا جا سکے۔ کائنات کے مالک اور خالق نے ہمیں کانوں کو بند کرنے کے لیے ڈھکنے نہیں دیے، لیکن آنکھوں کو غیر ضروری روشنی سے بچنے کے لیے پلکیں ضرور عطا کی ہیں جنھیں بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب آنکھیں استعمال میں نہ ہوں تو انھیں بند ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس جب آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو انہیں مکمل طور پر کھلی ہونا چاہیے۔ ہم اپنے مشاہدے کے عمل کو تیز کر کے اپنے دیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بینائی کا انحصار دماغ کی طرف بھیجی گئی ترجمانی پر ہوتا ہے اور اس کا انحصار ذخیرہ شدہ بصری یاداشتوں پر اسی طرح ہوتا ہے جیسے رواں بصری محرکات پر ہوتا ہے۔ اگر آنکھیں خراب عادات کی وجہ سے تنائو کا شکار ہوتی ہیں یا اگر کم روشنی کی صورت میں ان کے استعمال سے تھکاوٹ محسوس ہو، یا تیز چمکدار روشنی میں آنکھیں چندھیا جائیں تو : 1۔ آنکھوں کو ملنا نہیں چاہیے۔ اس کے بجائے مندرجہ ذیل تکنیکوں کو برئوکار لائیں اور ان پہ آنکھوں پر چشمہ لگائے بغیر عمل کریں۔ 2۔آنکھوں کو ہتھیلیوں سے ڈھانپ کر آرام و سکون دیں۔ آنکھوں کو کچھ سیکنڈ ڈھانپے ہوئے یہ محسوس کریں کہ آپ ایک ایسے کمرے میں موجود ہیں جس کی دیواروں پر گہرے مخملیں کپڑے لٹکائے گئے ہیں۔ 3۔تب آنکھیں کھولیں اور پلکوں کو تیز تیز اور ایک ترتیب سے جھپکیں۔ اس سے آنکھوں کے اردگرد کے عضلات متحرک ہو جائیں گے۔ 4۔چہرے اور آنکھوں کے اردگرد کے عضلات کو ورزش کرائیں، پہلے آنکھوں اور بھوئوں کو سکیڑیں اور بعد میں ڈھیلا چھوڑ دیں۔ اس ورزش کو کئی دفعہ دہرائیں۔ 5۔آنکھ کے چھ مداری عضلات میں تنائو کو کم کرنے کے لیے سر کو بالکل ساکت رکھیں۔ 6۔پہلے آنکھوں کو گھڑی وار(Clockwise) گھمائیں اور بعد میں خلاف گھڑی وار (Anticlockwise) سمت میں گھمائیں، ایسا کئی بار کریں۔ 7۔پھر ایک انگلی کو آنکھوں سے آٹھ انچ کے فاصلہ پر رکھ کر اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھیں۔ اس ورزش کو بھی کئی بار کریں۔ اس سے ہمارے مڑگانی عضلات میں تنائو ختم ہو جائے گا۔ جو لوگ آنکھوں میں تھکن اور تکلیف محسوس کرتے ہیں وہ ان سادہ ورزشوں کو بار بار دْہرا کر استفادہ کر سکتے ہیں کیونکہ دوسری جسمانی ورزشوں کی طرح آنکھوں کی ورزشیں بھی ضروری ہیں۔ ٭٭٭




      Similar Threads:

    2. #2
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      160

      Re: اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!

      Bohat Khoob
      Umda Sharing



    3. #3
      Vip Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982www.urdutehzeb.com/public_html ~KAYRA~'s Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      ●♥ღ язαmℓάи ღ♥●
      Posts
      6,773
      Threads
      1070
      Thanks
      16
      Thanked 83 Times in 77 Posts
      Mentioned
      201 Post(s)
      Tagged
      1897 Thread(s)
      Rep Power
      188

      Re: اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!

      Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
      اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!



      زبیر وحید
      اس طریقے سے جرمن فوج کے رنگروٹوں نے خوب فائدہ اُٹھایا ***** مشہور ناول نگار ایلڈوئس ہکسلے ( Huxley Aldous) نے اپنے بچپن کے تقریباً اٹھارہ مہینے مکمل اندھے پن میں گزارے تھے اور وہ صرف بریل کی مدد سے پڑھ لکھ سکتا تھا۔ ہکسلے کی بینائی اگرچہ جزوی طور پر بحال ہو گئی، لیکن اس کے بعد نظر کی طاقتور عینک کے استعمال کے باوجود پڑھتے وقت وہ بہت زیادہ تھکن اور تنائو محسوس کرتا تھا۔1939ء میں اس کی دیکھنے کی صلاحیت اچانک خراب ہو گئی۔ اسے تعجب ہوا کہ کیسے وہ اپنے کام نمٹا سکے گا، کیونکہ اسے ممکنہ حد تک محسوس ہوتا تھا کہ وہ مکمل طور پر نابینا ہو چکا ہے۔ اس صورت حال میں اس نے ہر پہلو پر غور کیا کہ انسانی آنکھیں اتنی زد پذیر کیوں ہیں کہ کسی بھی حملے سے بہت جلد متاثر ہوتی ہیں اور پھر دوبارہ تندرست نہیں ہو پاتیں؟ جب کہ جسم کے دوسرے اعضاء خود کار میکانیت سے درست ہو جاتے ہیں تو پھر آنکھیں کیوں نہیںدرست ہو تیں؟ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں خود بخود جڑ جاتی ہیں، پھٹی ہوئی جلد مرمت ہو جاتی ہے اور خون کے خلیے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی آنکھوں پر یہ فارمولا کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ اس نقطے کے پیشِ نظر ہکسلے نے دیکھنے کی تعلیم نو کے متعلق سنا جس کے پیشرو نیویارک کے ایک معالج چشم ڈاکٹر ڈبلیو۔ ایچ بیٹس (W.H.Bates) تھے۔ اس نے بیٹس کی تکنیک کو اپنایا اور کامل اعتماد سے ورزش کرتا رہا اور چند مہینوں بعد اس کا نتیجہ وہ یوں بیان کرتا ہے کہ ’’صرف دو مہینے کے عرصے میں میں چشمے کے بغیر پڑھنے کے قابل ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بغیر تھکاوٹ یا تنائو کے…… ! دائمی تنائو اور وقتی تھکان ماضی کی بات بن کر رہ گئی۔‘‘ بیٹس کے طریقہ کار کو اپنا کر بہت سے لوگ بینائی کو بہتر بنا چکے ہیں اور چشموں سے نجات حاصل کر چکے ہیں۔ اس طریقے کی کامیابی کی وجہ عموماً یہ خیال کی جاتی ہے کہ بصری نقائص اکثر بنیادی طور پر عملی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے نہ صرف ان کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کا بآسانی علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ آنکھوں کی خرابی کی رسمی وجہ اس میں عملی طور پر عضوی تبدیلی کا پیدا ہونا ہے۔ نظر کے چشمے انعطافی درستگی کے لیے تجویز کیے جاتے ہیں جو آنکھوں کے بوجھ کو کم کرتے ہیں۔ بیٹس کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا تسلسل اکثر معکوس ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں تنائو اکثر دیکھنے کی صلاحیت میں خرابی کے نتیجے کے مقابلے میں اس کا سبب ہوتا ہے۔آ نکھوں کا علاج چشمے کے استعمال کے بجائے تنائو کو کم کر کے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چشمے بینائی کے لیے بیساکھیوں کا کام دیتے ہیں۔ یہ بینائی میں نقص کی وجہ کو دور نہیں کرتے چنانچہ ان کو استعمال کرنے والوں کو ہمیشہ ان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آنکھوں کے نازک نظام کو ان کے استعمال میں مناسب حد تک کمی لا کر بہتر بنایا جا سکتا ہے جس سے جسم کو آنکھوں کی خرابی کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس نظریے کی کامیابی کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہزاروں لوگوں نے اس طریقہ کار کو اپنایا اور انہیں اس سے بہت زیادہ فائدہ بھی ہوا۔ جرمنی میں بہت سے ’’seeing school‘‘ کھولے گئے۔ 1934ء میں ایک جرمن سرجن نے بتایا کہ آنکھوں کے استعمال کی تربیت سے فوج کے بہت سے رنگروٹوں کو فائدہ ہوا۔ ان کی بینائی میں کافی حد تک بہتری آئی اور ان کی نشانہ بازی کی صلاحیت چشموں کا استعمال ترک کرنے کے باوجود بہتر ہو گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں، انہیں فوراً چشمہ نہیں لگوانا چاہیے بلکہ پہلے آنکھوں کے استعمال میں کمی لا کر انھیں بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہت سے لوگ صرف یہ سیکھ کر کہ اپنی آنکھوں کو کیسے قابلیت سے استعمال کیا جا سکتا ہے، اچھا خاصا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بہت زیادہ تنائو کی حالت میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے آنکھوں پر بوجھ پڑتا ہے۔ آنکھوں کی بہترین صحت کے لیے شرطِ اول کو جاننا ضروری ہے اور یاد رکھیے کہ سکون شرط اول ہے،یہ ایک اور طرح کا نفسی حرکی فن ہے، جیسے کہ جمناسٹک، گائیکی اور گولف ہے۔ جب ہم بہت کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بہت زیادہ تنائو ہوتا ہے اور اس کا اثر ہماری کارکردگی پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو غصے میں دیکھیں گے تو غصے میں انسان اندھا ہو جاتا ہے۔ ہمیں آنکھوں کو صرف دیکھنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ ان کو دیکھنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ آنکھوں کے غلط استعمال میں نقصان ہمارا اپنا ہی ہو گا۔ کسی بھی آرٹ گیلری میں آویزاں تصویر کو آگے بڑھ کر دیکھنے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ دور کھڑے ہو کر دیکھی جائے۔ تصویر کو اس انداز سے دیکھیں کہ یہ آپ کی جانب بڑھے۔ ایک مشہور شخص کا قول ہے کہ ’’دریا کو مت دھکیلیں اسے اپنی ڈگر پر بہنے دیں۔‘‘آنکھوں پر تنائو کبھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ صاف دیکھنے کے لیے ہمیں اپنی آنکھوں کو متحرک رکھنا چاہیے۔ اگر ہماری آنکھیں کسی شے پر کافی دیر جمی رہیں تو ہمارے ادراک کا عمل ہلکا پڑ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم انگلیوں کو میز پر رکھیں تو تھوڑی دیر بعد ہمیں اس بات کا احساس نہیں رہتا کہ ہماری انگلیاں کہاں ہیں۔ ان دونوں قسم کے واقعات میں انگلیوں یا آنکھوں کی حرکت ہماری آگاہی میں اضافہ کرتی ہے۔آنکھوں کے متحرک رہنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ ہم 130ملین سے زائد روشنی کے لیے حساس خلیوں ( Cells Receptor) کی مدد سے دیکھتے ہیں جو راڈز (Rods) کونز (Cones) کہلاتے ہیں۔ یہ خلیے آنکھوں میں یکساں طور پر منقسم نہیں ہوتے۔ پردۂ چشم کی بیرونی جانب راڈز کثرت سے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے مدھم روشنی میں بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔ رات کے وقت جس شے کو ہم صاف دیکھنا چاہتے ہیں اسے دیکھنے کے لیے ہمیں محیطی بصارت (Vision Peripheral) کی ضرورت ہوتی ہے۔ پردہ بصارت کے درمیانی حصے میں بڑی تعداد میں کونز (Cones) ہوتے ہیں۔ جو دن کی روشنی میں دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب ہم زرد نقطہ (Lutea Macula) پر نظر مرکوز کرتے ہیں تو ہمیں تیز بصارت حاصل ہوتی ہے، یعنی ہم بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ زرد نقطہ پردہ چشم کی پچھلی جانب موجود ہوتا ہے جہاں پر کونز کا زیادہ ارتکاز ہوتا ہے اور راڈز مکمل طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔ پردہ چشم کے کچھ حصوں میں ایک عصبی ریشہ 100 مختلف الگ الگ راڈز اور کونز کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، لیکن زرد نقطہ پر ہر کون اپنا عصبی ریشہ رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم زرد نقطہ پر نظر کو مرکوز کرتے ہیں تو ہم بہت تفصیل کے ساتھ تصویر کو دماغ میں منتقل کرتے ہیں۔ صاف دیکھنے کے لیے ہمیں زرد نقطہ پر اپنی نظر کو بہتر بنانے کا فن سیکھنا چاہیے۔ ہم کسی نظارے کو مکمل طور پر ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتے لیکن ہمیں اس کی ایک مرکب تصویر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ٹی وی کی تصویر نقاط کے ڈھیروں تسلسل سے بنتی ہے۔ گھور کر دیکھنے سے آنکھوں کی آزاد تجزیاتی حرکت میں کمی آتی ہے۔ گھور کر دیکھنے سے بصارت کی تیز فہمی میں بھی کمی آتی ہے اور اس کے ساتھ ہم انتہائی کوشش سے دیکھنے سے زیادہ تنائو اور دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ ایلڈوئس ہکسلے اپنی تصنیف ’’دیکھنے کا فن‘‘ (The Art Of seeing) میں لکھتا ہے کہ ’’گھورنے والی نظر ہمیشہ موضوع کو الٹ دیتی ہے۔‘‘ کیونکہ زیادہ دیکھنے کے بجائے، ایک شخص جو اپنے حسی اعضاء کو غیر متحرک کر چکا ہوتا ہے (حسی اعضاء کو غیر متحرک کرنا ایک ایسا عمل ہے، جس میں انسان اپنی قریبی باہمی توجہ بھی غیر متحرک کر دیتا ہے) اس سے اس کی دیکھنے کی قوت خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آنکھوں سے کرنے والے بہت سے کاموں میں آرام سے دیکھنے کے بجائے گھورنے اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس سے آنکھوں پر غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔ جب ہم کار چلاتے ہوئے، ٹیلی ویڑن دیکھنے کے دوران، کتاب پڑھتے ہوئے، یا سوئی دھاگے سے کوئی نفیس اور باریک کام کرتے ہوئے اپنی آنکھوں کو غیر عضویاتی انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ جس سے آنکھوں پر دبائو پڑتا ہے اور تنائو محسوس ہوتا ہے۔ عضلات ہمیشہ اس وقت تکلیف محسوس کرتے ہیں جب انھیں کافی دیر تک ایک ہی حالت میں سکڑے رہنا پڑے، جیسے کہ پین کو دیر تک پکڑے رکھنے، سوٹ کیس اٹھانے اور زیادہ دیر جھکے رہنے سے عضلات تھک جاتے ہیں۔ چلنے، تیرنے اور ناچنے جیسے قدرتی افعال میں عضلات پر نسبتاً کم تنائو ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی حرکات میں عضلات سکڑتے بھی ہیں اور سکون بھی حاصل کرتے ہیں۔ عضلات کا اس طرح متبادل حالتیں حاصل کرنا رگوں، ٹانگوں، بازوئوں، دل اور آنکھوں کے لیے بہت مفید ہے۔ آنکھوں کے ڈھیلے کی حرکت کو چھ عضلات کنٹرول کرتے ہیں۔ بغور نظر جما کر کافی دیر تک کام کرتے رہنے سے منشی روک (Writers camp) لاحق ہوسکتا ہے۔ اس تکلیف سے بچنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ آنکھوں کو ادھر ادھر گھمائیں۔ اگر ایسا کرنے سے بھی صورت حال میں فرق نہیں آتا تو کام کے وقفوں اور پڑھنے کے اوقات میں تبدیلی پیدا کر کے تنائو سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ آنکھوں سے کیے جانے والے کاموں کے دوران وقفوں سے نظریں ہٹا ہٹا کر عضلات میں مستقل سکڑائو سے پیدا ہونے والے درد کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی بات کا اطلاق آنکھوں کے اندر مژگانی عضلات ( Muscles Ciliary) پر بھی ہوتا ہے، جو آنکھوں کے عدسے کے خم اور نتیجتاً عدسے کی فوکس کرنے کی طاقت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جب ہم دیر تک کسی شے پر نظروں کو مرکوز رکھتے ہیں تو اس سے ان عضلات پر زیادہ دبائو پڑتا ہے۔ بینائی قدرت کا حسین ترین عطیہ ہے اس لیے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی قدرتی جسمانی نظام نے خود لیا ہوا ہے۔ آنکھوں کے جھپکنے کے عمل سے آنکھیں محفوظ رہتی ہیں اور ان میں پڑنے والی خاک اور ذرات صاف ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے جھپکنے کے دوران ایک نمکین مائع نکلتا ہے جو آنکھوں کی صفائی میں معاون ثابت ہوتا ہے، آنکھوں کے جھپکنے کا دورانیہ ایک سیکنڈ کے 3/10ویں حصے کے برابر ہوتا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھیں ایک منٹ میں اوسطاً 30 دفعہ جھپکتی ہیں۔ اس سے پردہ چشم کے خلیات کو سکون ملتا ہے۔ ٹکٹکی باندھ کر کام کرنے سے آنکھوں کے جھپکنے میں کمی آتی ہے۔ اس لیے کام کرتے وقت چاہیے کہ آنکھوں کو جھپکتے رہیں تا کہ غیر ضروری درد، تکلیف اور تنائو سے بچا جا سکے۔ کائنات کے مالک اور خالق نے ہمیں کانوں کو بند کرنے کے لیے ڈھکنے نہیں دیے، لیکن آنکھوں کو غیر ضروری روشنی سے بچنے کے لیے پلکیں ضرور عطا کی ہیں جنھیں بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب آنکھیں استعمال میں نہ ہوں تو انھیں بند ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس جب آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو انہیں مکمل طور پر کھلی ہونا چاہیے۔ ہم اپنے مشاہدے کے عمل کو تیز کر کے اپنے دیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بینائی کا انحصار دماغ کی طرف بھیجی گئی ترجمانی پر ہوتا ہے اور اس کا انحصار ذخیرہ شدہ بصری یاداشتوں پر اسی طرح ہوتا ہے جیسے رواں بصری محرکات پر ہوتا ہے۔ اگر آنکھیں خراب عادات کی وجہ سے تنائو کا شکار ہوتی ہیں یا اگر کم روشنی کی صورت میں ان کے استعمال سے تھکاوٹ محسوس ہو، یا تیز چمکدار روشنی میں آنکھیں چندھیا جائیں تو : 1۔ آنکھوں کو ملنا نہیں چاہیے۔ اس کے بجائے مندرجہ ذیل تکنیکوں کو برئوکار لائیں اور ان پہ آنکھوں پر چشمہ لگائے بغیر عمل کریں۔ 2۔آنکھوں کو ہتھیلیوں سے ڈھانپ کر آرام و سکون دیں۔ آنکھوں کو کچھ سیکنڈ ڈھانپے ہوئے یہ محسوس کریں کہ آپ ایک ایسے کمرے میں موجود ہیں جس کی دیواروں پر گہرے مخملیں کپڑے لٹکائے گئے ہیں۔ 3۔تب آنکھیں کھولیں اور پلکوں کو تیز تیز اور ایک ترتیب سے جھپکیں۔ اس سے آنکھوں کے اردگرد کے عضلات متحرک ہو جائیں گے۔ 4۔چہرے اور آنکھوں کے اردگرد کے عضلات کو ورزش کرائیں، پہلے آنکھوں اور بھوئوں کو سکیڑیں اور بعد میں ڈھیلا چھوڑ دیں۔ اس ورزش کو کئی دفعہ دہرائیں۔ 5۔آنکھ کے چھ مداری عضلات میں تنائو کو کم کرنے کے لیے سر کو بالکل ساکت رکھیں۔ 6۔پہلے آنکھوں کو گھڑی وار(Clockwise) گھمائیں اور بعد میں خلاف گھڑی وار (Anticlockwise) سمت میں گھمائیں، ایسا کئی بار کریں۔ 7۔پھر ایک انگلی کو آنکھوں سے آٹھ انچ کے فاصلہ پر رکھ کر اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھیں۔ اس ورزش کو بھی کئی بار کریں۔ اس سے ہمارے مڑگانی عضلات میں تنائو ختم ہو جائے گا۔ جو لوگ آنکھوں میں تھکن اور تکلیف محسوس کرتے ہیں وہ ان سادہ ورزشوں کو بار بار دْہرا کر استفادہ کر سکتے ہیں کیونکہ دوسری جسمانی ورزشوں کی طرح آنکھوں کی ورزشیں بھی ضروری ہیں۔ ٭…٭…٭


      in shorttt;Sleeping:




      DonT Wanna Say AnythinG!!!
      ​​​​
      Dont PLAY With Me
      Coz I know
      I Can PLAY Better Than You.

      kayra~

    4. #4
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 586 Times in 427 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      199

      Re: اپنی بینائی کو بہتر بنائیے...!

      Thanks for great sharing






      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •