وہا

ں بیٹھے ہوئے زندگی میں پہلی بار میں نے سوچا ۔ ۔ ۔ کیا ضروری تھا کہ میں فوج میں آتا۔ ۔ ۔ اور اس قوم کے لیئے ان پہاڑوں پر اپنے جسم کے حصوں کو باری باری خود سے جدا ہوتے دیکھتا۔ ۔ ۔ جو یہ بھی نہیں جانتی کہ شہید یا غازی کا احترام کیا ہوتا ہے۔

20 سال بعد جب میں بھی ایسے کسی سٹیج پر یہ بتانے جاؤں گا کہ میرے سینے پر ہاتھ کٹوا کر سجایا جانے والا یہ تمغہ میرے لئے کیا معنی رکھتا ہے۔ ۔ ۔ تو شائید میں بھی کریم بخش کی طرح بات کرتے ہوئے لڑکھڑاؤں گا۔ ۔ ۔ اور شائید میرے انٹرویوکے بعد بھی حاضرین اگلے کسی مہمان کی بجائے کسی سنگر کو بلوانے کی فرمائش کریں گے تاکہ اس بوریت کا سد باب ہو سکے جو انھیں پچھلے چند منٹوں کے دوران ہوئی۔ میں کیوں پاکستان کی ان نسلوں کی لیئے اپنا حال قربان کروں جن کے لئے ہر چیز گانے سے شروع ہو کر ناچنے پر ختم ہو جاتی ہے۔ جن کے لئے ہر اہم تہوار چھٹی کا ایک اور دن اور ایک اور میوزیکل ایوننگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔
زندہ قومیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو بھلاتی نہیں ہیں مگر ان کے پاس ان قربانیوں کے لئے عزت نہیں ہوتی۔


از عمیرہ احمد
ہلال جراءت