فنِ خطاطی ہمارا حقیقی ثقافتی ورثہ
مبشر کلیم خان
مشہور عربی مقولہ ہے القلم سفیر العقل علم عقل کا سفیر ہے۔ فنونِ لطیفہ کا اہم موضوع خطاطی جس قدر دلچسپ ہے اسی قدر وسیع بھی ہے۔ امیہ دور میں ہی ایک اہم شخصیت کتبہ نے خطاطی کے حروف کو حسین و جمیل بنانے کے لئے جلی و تومان کو رواج دیا پھر عباسیوں کے دور 750سے 1258ء تک کئی خطاط پیدا ہوئے ان میں قابلِ ذکر ابن مقلہ بیضاوی ہیں جنہوں نے نہ صرف خطِ نسخ کو نئی طرح دی بلکہ کئی اور خط بھی ایجاد کئے جن میں توقیع، ثلث، محقق، ریحان، اور خطِ رقعہ بھی شامل ہیں ان کے مکمل قواعد و ضوابط مرتب کئے کہ ہر طرزِ تحریر کو کن اْصولوں کے مطابق لکھا جائے۔اس کے بعد یعقوب مستعصمی نے 1298ء میں خطِ تعلیق ایجاد کیا جو کہ پہلے سے موجود خط رقعہ اور توقیع کے ملاپ سے معرضِ وجود میں آیا۔ پھر خطِ کوفی کے بھی کئی نمونے یا طرز ہائے تحریر وضع کئے گئے۔ خطِ کوفی مغربی کا انداز الگ اختیار کیا گیا۔ اس کے بعد سولھویں صدی عیسوی میں میر علی تبریزی نے تیموری دور میں خطِ نستعلیق ایجاد کیا جو خطِ نسخ اور تعلیق کے امتزاج سے لکھا گیا اس ایجاد پر انہیں سرکار کی طرف سے ماڈل آف کیلی گرافی کا بڑا اعزاز دیا گیا۔712عیسوی میں محمد بن قاسم جب برصغیر آیا تو عربی زبان و ادب اور عربی خطاطی کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ لوگوں میں آہستہ آہستہ فنی شعور فہمی کا ادراک ہوا خطاطی کو بڑی پذیرائی ملی اب بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برِ صغیر میں یہ فن ثقافتی شناخت کے حوالہ سے ایک اہم فنی و ثقافتی درجہ اختیار کر گیا ہے۔ خطاطی کی چمک دمک، اس میں لکھے گئے لفظوں کی جلوہ آرائی اور اساتذئہ فن کی تخلیقی صلاحیتوں کا طمطراق فقط مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے وجدان کو بھی اپنے جلوئوں سے مسرور و معمور کرتا ہے۔ میڈل کرسچل کنگ نے اپنی عدالت کے در و دیوار، فرنیچر اور محل کی تعمیراتی محرابوں کو عربی خطاطی سے مزین کیا ہوا تھا۔ مغلیہ دور کی اکثر عمارات اور خاص طور پر آٹھواں عجوبہ تاج محل آگرہ، لاہور میں مزار قطب الدین ایبک، داتا دربار، ملحقہ مسجد، اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد۔ ملتان میں خانقاہ شاہ رکن عالم اور غوث بہائوالدین زکریا، خانقاہ شاہ یوسف گردیز، خانقاہ حضرت موسیٰ پاک شہید کی عمارات کا حسنِ تعمیر آج بھی فنِ خطاطی کی جلوہ آرائی کی بدولت تر و تازہ ہے اور حْسنِ نظارا کا منبع و مرکز ہے۔اسلامی معاشروں میں خطاطی کے فن نے خوب ترقی پائی برصغیر بھر میں سرزمین ملتان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں پر خطِ نستعلیق کی ایجاد کے سات سو سال بعد ایک نیا طرزِ تحریر جو عربی، فارسی، اْردو، سرائیکی اور پنجابی زبانوں کی تحریر کا نمائندہ ہے۔ خطِ رعنا کے نام سے ایجاد کیا گیاہے۔اب اسلامی خطاطی ہمارے حقیقی ثقافتی ورثہ کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ایک جمالیاتی فن کے حوالہ سے درجہ انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ تمدنی ادوار کے شروع سے ہی عربی کے جو حروفِ ابجد تھے وہ خطاطی کے لحاظ سے اسلامی معاشروں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ مذہبی شاعری اور لفظوں کی تصویر سازی میں مسلمان تخلیق کاروں نے اپنی جمالیات کو بروئے کار لا کر بڑا جلوہ آرا تخلیقی کام کیا ہے۔ گویا اب خطاطی صرف لکھنے کا عمل نہیں رہا بلکہ فنونِ لطیفہ کی ایک اہم صنف کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب اس کے نقوش جریدئہ عالم پر نہ صرف ثبت ہو چکے ہیں بلکہ دوام حاصل کر چکے ہیں اور اب اس فن پر بین الاقوامی سطح کے مقابلے ہوتے ہیں اور خطاط صاحبان میں ان کی فنی خدمات پر گرانقدر انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اور وطنِ عزیز پاکستان کے معزز خطاط صاحبان ذاتی طور پر فنِ خطاطی کے فروغ اور اس کے تحفظ کے لئے قابلِ ذکر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس عظیم ورثہ کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر خاطر خواہ کام مفقود ہے۔ کچھ لوگ جو صاحبِ ذوق ہیں ذاتی طور پر اس فن شریف کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
Similar Threads:
Bookmarks