اقبال سے علامہ محمد اقبال تک کا سفر




اختر رسول
سیالکوٹ میں9نومبر 1877ء کو پیدا ہونے والے اقبال کو علامہ اقبال اور عظیم شخص بنانے میںمیر حسن جیسے قابل اساتذہ کی کاوشیں بھی شامل ہیں ****** برعظیم پاک و ہندمیں مغلوں کے زوال کے بعد انگریزوں کا راج ہوا تو ہر سطح پر مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کیا جانے لگا۔اس سے قبل کہ مسلمانانِ ہند ذہنی طور پر مفلوج و بے بس ہو کر اپنی شناخت تک کھو بیٹھے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانانِ ہند پر رحم کیا اور اُن کے درمیان ایک ایسے شخص کو پیدا کیا، جس نے مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا اور اُن میں خودی اور جوانمردی کی نئی روح پھونکی،یہ عظیم شخص اقبال تھا،جسے خدائے بزرگ و برتر نے 3ذیقعد 1294ھ مطابق 9نومبر 1877ء کو اس دنیا میں بھیجا۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اقبال کو عظیم شخص بنانے میںمیر حسن جیسے قابل اساتذہ کی کاوشیں شامل رہیں۔ شہر سیالکوٹ سے اقبال ولد نور محمد نے 1891ء میں مڈل کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا ۔ اقبال غیر معمولی ذہن کے مالک تھے، اساتذہ کا خیال تھا کہ آپ آنے والے وقت میں میدان تعلیم میں بہتر کامیابیاں حاصل کریں گے۔ اقبال نے اساتذہ کو ذرا بھی مایوس نہ کیا۔ 1893ء میں میٹرک کے امتحان میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے۔ اس سال اقبال کی شادی گجرات کے ڈاکٹر بہادر خان کی دختر کرم بی بی سے ہوگئی۔ اس کے باوجود اقبال کا تعلیمی سفر نہ رُکا کیوں کہ اقبال کو آگے جا کر ملک و قوم کو مایوسی کے چنگل سے نکلنے کا پیغام دینا تھا۔ سوئی ہوئی قوم کو اپنے علم و ہنر کی مدد سے جگانا تھا۔ اقبال سے علامہ اقبال بن کر دُنیا کی سیاست کو بدلنے کا سامان کرنا تھا۔ 1895ء میں اقبال، علامہ اقبال بننے کی جانب ایک قدم آگے اس طرح بڑھے کہ اپنے آبائی شہر سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پورے پنجاب میں عربی میں اول آئے، مگر ابھی اقبال کے اندر لگی ہوئی حصول علم کی آگ نہ بجھی تھی بلکہ اسی ذوق و شوق نے آپ کو لاہور سفر کرنے پر مجبور کیا اور 1897ء میں لاہور آنے کا پہلا مقصد اس وقت پورا ہوا جب آپ نے بی اے کا امتحان پاس کیا اورعربی مضمون میں یونی ورسٹی میں اول آئے۔ آپ برعظیم پاک و ہند کا جائزہ لے رہے تھے اور اس بات کو محسوس کر رہے تھے کہ ایک عظیم قوم کو دبایا جارہا ہے۔ 1899ء کا سال اقبال کی کامیابیوں میں ایک اور اضافہ لے کر آیا اور ایک نوید کا پیغام بھی ساتھ لایا۔ جب آپ نے فلسفہ میں ایم اے کیا اور امتیازی تمغہ حاصل کیا وہ قدرتی ذہانت جو عطائے باری تعالیٰ نے دی تھی۔ آپ نے اس کا استعمال بھی خوب کیا اور انبیاء کے پیشے یعنی تدریس کا انتخاب کیا۔ 1899ء تا 1903ء میں اورینٹل کالج لاہور میں بطور اُستاد خدمات سر انجام دیں۔ 24فروری1900ء میں انجمن ِحمایت اسلام میں نظم پڑھی ،جس کا عنوان نالۂ یتیم تھا۔ عظیم مفکر حضرت علامہ اقبال 1901ء میں شاہ گلاب دین کے گھر بھاٹی گیٹ میں قیام پذیر رہے اور اندرون لاہور کا بغور جائزہ لیا۔ 1903ء میں وہ خوش قسمت سال تھا جب اقبال کی پہلی تصنیف علم الاقتصاد منظر عام پر آئی ۔ 1904ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجتماع کے موقع پر آپ نے ایک بار پھر نظم پڑھی، جس کا عنوان تصویر درد تھا۔حصول ِعلم کا طوفان ابھی بھی حضرت اقبال کے اندر موجزن تھا اسی تشنگی کی تسکین کے لیے آپ1905ء میں لندن تشریف لے گئے ،مگر لندن جانے سے پہلے آپ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار پر حاضری دینے کے لیے پہنچے۔ آپ دین ِحق میں مکمل طور پر ڈوبے ہوئے تھے اور نیک و پاک بندوں سے خاص عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ 1906ء میں برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت و قدرو منزلت کا باعث ہے کیوں کہ اس سال ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ کی صدارت میںآل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی۔1907ء میں علامہ اقبال نے مابعد الطبیعات کا ارتقاء کے موضوع پی ایچ ڈی کی ڈگری جرمنی سے حاصل کی اور یوں اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑتے ہوئے محمد اقبال سے علامہ اقبال کے نزدیک ہوتے جارہے تھے ،اسی سال پروفیسر آرنلڈ کی جگہ حضرت اقبالؒ نے لندن یونی ورسٹی میں چھ ماہ تک عربی کی تعلیم دی۔1908ء اس عظیم فلسفی کے لیے مزید کامیابیاں لے کر آیا۔ اقبال اپنی محنت و لگن کی بنیاد پر تعلیم کے ہر میدان میں کامیابیاں حاصل کرتے جارہے تھے، اسی سال آپ نے لنکن لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور پھروطن واپس لوٹ آئے۔ اس وقت برعظیم پاک وہند کے سیاسی حالات ابتر تھے خاص طور پر مسلمانان برعظیم پاک و ہند مشکلات و آفات کا شکار تھے۔ تمام اہم سرکاری ذمہ داریاں ہندوئوں نے انگریزوں سے وفاداری کے عوض ہتھیالی تھیں۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کو بہت مایوس کردیا تھا۔ مولانا الطاف حسین حالی ؔنے اُن کی حالت زار کا نقشہ یوں کھینچا: پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے اقبال کے علم کا زمانہ معترف ہونے لگا تھا اور آپ، محمد اقبال سے علامہ اقبال بننے لگے تھے۔ آپ کے اساتذہ کی کاوشیں رنگ لانے لگی تھیں سوئے ہوئے مسلمان آپ کی شاعری کے الفاظ کی آب و تاب و چھنگ وکھنک سے بیدار ہونے لگے تھے۔1909ء میں علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور فلسفہ کے پروفیسر خدمات سرانجام دیں۔ عظیم فلسفی، مفکر اسلام کے رنگ میں ڈھل گئے تھے۔ زمانہ آپ کا گروید و مداح ہونے لگا تھا، مگر آپ کا دل مسلمانوں کی حالت زار پر اشک بار رہتا تھا کیوں کہ آپ نے جرمنی اور لندن قیام کے دوران عظیم مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا اُن کی عظمتوں کے منبروں نے آپ پر حقیقتیں آشکار کردی تھیں۔ اقبال دین حق کو اس کی اصل ہیت وصورت کے ساتھ سمجھنے لگے تھے۔ 1910ء میں اقبال حیدر آباد دکن تشریف لے گئے تھے اور علی گڑھ کا دورہ بھی کیا۔ آپ کی شاعری میں عجیب سرور کی کیفیت ہے ۔اس میں بیداری کا ، خودی کا، اپنی پہچان اور مسلمانیت کی شان کا پیغام ہے۔ الغرض اقبال نے محمد اقبال سے علامہ اقبال کا سفربڑی خوش اُسلوبی سے سرانجام دیا۔ 1911ء میں اقبال نے انجمن ِحمایت اسلام کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نظم شکوہ پڑھی۔مفاد پرست عناصر جو علمی سطح پر آپ کو زچ نہیں کرسکتے تھے، آپ پر تنقید کرنے لگے کہ شاید اس طرح وہ علمی اعتبار سے آپ کی برابری کرسکیں یا خدانخواستہ مفکر اسلام کو اس عظیم مقام سے ہٹا دیں، جو دین ِحق کی خدمت سے آپ نے حاصل کیا تھا۔ مالک ِکائنات زبردست حکمتوں والا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔شکوہ کے ایک سال بعد یعنی 1912ء کو موچی دروازے کے ایک بڑے اجتماع میں علامہ اقبال نے جواب شکوہ پڑھا تو نقاد خاموش ہوگئے اور یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ آپ واقعی دین حق کو سمجھنے والے ہیں اور عالم وقت ہیںاور یہ بھی ماننے لگے کہ آپ حکیم الامت ہیں۔ اُن دنوںبرعظیم پاک وہند کے سیاسی حالات بدستور بگڑ رہے تھے۔ قیامِ مسلم لیگ اور اس میں مسلمانوں کی شمولیت سے ایک بات واضح ہوگئی تھی کہ ہندوستان کی نمایندہ جماعت صرف کانگریس نہیں تھی اور نہ ہی ہندوستان کا خطہ کسی ایک قوم پر مشتمل تھا۔ 21اپریل 1939ء کو صبح چار بجے جاوید منزل میں یہ عظیم فلسفی اور مفکر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے، مگر قوم و اسلام کی خدمات اس طرح سرانجام دے گئے کہ آج بھی آپ زندہ ٔجاوید ہیں ۔بقول فیض احمد فیضؔ: آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر آیا اور اپنی دُھن میں غزل خواں گزر گیا ٭٭٭




Similar Threads: