’’ جب کوئی آپ پر نکتہ چینی کرے تو فوراًاس سے اتفاق کرلیں۔ اس سے کہیں کہ اگر وہ آپ کو بہتر طور پر جانتا ہوتا تو اس کو آپ میں زیادہ خامیاں نظر آسکتی تھیں ‘‘
bahtreen . bohat umdah. Jazak Allah
اینگری پیپل۔۔۔۔ کیسے نمٹا جائے ؟
عبدالستار ہاشمی
دوہزار سال پہلے ایک یونانی فلسفی نے اس نکتے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ ’’ جب کوئی آپ پر نکتہ چینی کرے تو فوراًاس سے اتفاق کرلیں۔ اس سے کہیں کہ اگر وہ آپ کو بہتر طور پر جانتا ہوتا تو اس کو آپ میں زیادہ خامیاں نظر آسکتی تھیں ‘‘۔زندگی میں اکثر ایسے لوگوں سے پالا پڑتا رہتا ہے جوکہیں نہ کہیں ہمارے مقابل آکھڑے ہوتے ہیں۔ ان کا نامعقول رویہ دیکھ کر اکثر اوقات دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ان کو راہ راست پر لائیں۔ دلائل سے ان کو حقائق سے آگاہ کریں اور قائل کرکے چھوڑیں مگر اس قسم کے جوابی طرزعمل سے بات عموماًبننے کے بجائے بگڑ جاتی ہے۔ غیر ضروری دلیل بازیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ دوستیوں میں رخنہ آجاتا ہے۔ گھریلو زندگی میں بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے اور ماحول تلخ ہوجاتا ہے۔ایک امریکی ماہر نفسیات ڈیوڈ ڈی برنز نے اس مسئلے پر خصوصی غوروفکر کیا ہے۔ اس نے اپنے مطالعے ، غوروفکر ، مشاہدے اور اپنے مریضوں سے حاصل ہونے والے تجربے کی بنا پر ایک سادہ سا اصول وضع کیا ہے جس کو اختیار کرکے ہم ان لوگوں سے آسانی کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں جن کو مشکل افراد کہا جاتا ہے۔برنز کا کہنا ہے کہ اس اصول پر عمل کرکے ہم دوسروں کے ساتھ تضادات سے بچ سکتے ہیں اور ناپسندیدہ صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچاسکتے ہیں۔برنز کا سیدھا سا اصول یہ ہے کہ کسی دوسرے فرد کے ساتھ اختلاف یا تصادم کی صورت میں آپ ایک پل رک کر خود کو اس دوسرے فرد کی جگہ رکھیں ، اس کے احساسات کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کریں اور وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ، اس میں سچائی تلاش کریں۔ اس سارے عمل میں اس کے ساتھ اتفاق کرنے کی کوئی راہ بھی ڈھونڈیں۔ یہ ہے برنز کا اصول۔ آپ اس پر عمل کریں تو اس کے نتائج حیرت انگیز ہوسکتے ہیں۔ جلے بھنے لوگ گھر میں ایک جلا بھنا شخص ضرور ہوتا ہے ۔اس کے سڑیل پن کا سبب پوچھا جائے تو اس کا جواب ہوتا ہے ’’ کوئی بات نہیں ، مجھے تنگ نہ کریں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔اس قسم کے لوگ ہمارے ارد گرد اکثر پائے جاتے ہیں ، معاشرے میں ان کی کمی نہیں۔ شاید ہرگھرانے میں ایک آدھ ایسا فرد مل جاتاہے۔ جب ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ منہ بسورتے ہیں ، خفاخفا رہتے ہیں ، روٹھے ہوئے نظر آتے ہیں ، مگر زبان سے کچھ نہیں کہتے۔ ان سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو بھی کچھ نہیں بتاتے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس پر کھل کر بات کی جائے اور پھر اس کو دور کیاجائے۔ بغیر وجہ ناراض لوگ عام تجربہ ہے کہ بسااوقات لوگ کسی مناسب سبب کے بغیر ہی ناراض ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر وہ ناگوار باتیں بھی کہنے لگتے ہیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ بہترین طرزعمل یہ ہے کہ ہمیں کسی بہانے اس موقع سے نکل جانا چاہیے۔ معاملے کو ٹال دینا چاہیے تاکہ دوسرے فرد کو مہلت مل جائے۔ مہلت ملنے پر اکثر صورتوں میں دوسرے فرد کو اپنے غیر منطقی طرزعمل کا احساس ہوجاتا ہے۔ اس طرح معاملہ خودبخود ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس کو آپ حل کرنا چاہتے ہوں تو ایسا طرزعمل اختیارکرنا چاہیے جس سے دوسرے فرد کو عزت نفس کے مجروح ہونے کا احساس نہ ہو۔ یادرکھیں کہ دوسرے شخص کے نقطہ نظر میں تھوڑی بہت سچائی ضرور ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ اس بات کو تسلیم کرلیں تو پھر دوسرے کا رویہ خودبخود نرم پڑنے لگتا ہے۔ وہ معقولیت پر آمادہ ہونے لگتا ہے۔ گلے شکوے ہی نہیں ختم ہوتے کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے حال پوچھا جائے تو پوری رام کہانی لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بیوی بچوں کے مسائل سے شروع ہوتے ہیں ، کاروباری الجھنوں کا ذکرکرتے ہیں ، دوستوں ، رشتے داروں اور یہاں تک کے محلے داروں کی شکایتیں بھی سنانے لگتے ہیں، مگر اصل میں ان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ شکایتیں کرنے کے عادی افراد کو عام طورپر مشورے درکار نہیں ہوتے۔ وہ تو بس کسی ایسے شخص کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کی باتیں صبروتحمل سے سنے اور وقفے وقفے سے ہمدردی کا اظہار بھی کرتا جائے۔ آپ ہروقت دوسروں کے گلے شکوے کرنے والوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں، تو اس کا ایک موثر طریقہ یہ ہے کہ مشورے مت دیں۔ بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے جائیں۔ یوں ان کی بات جلد ختم ہوجائے گی۔ وہ اپنے قصے کو زیادہ وقت تک جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ تقاضے ہی تقاضے مشکل لوگ صرف وہی نہیں ہوتے جو بات بات پر ناراض ہوجاتے ہیں یا گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ اس لیے بھی مشکل بن جاتے ہیں کہ وہ ہروقت کوئی نہ کوئی تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ کئی اور لوگ بھی ہیں جو اس طرح دوسروں پر ’’قبضہ ‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے نجات کیسے پائی جائے ؟ اس کا ایک موثراور آزمایا ہوا طریقہ ’’ ٹال مٹول ‘‘ ہے۔ جب کوئی دوسرا فرد ایسا مطالبہ کرے جس کو پورا کرنا مشکل ہو تو فوراً ہی ہاں یا نہ میں اس کو جواب مت دیں۔ ’’ ہاں ‘‘ میں جواب دینے سے آپ پھنس جائیں گے جبکہ صاف انکار کرنے سے دوسرے شخص کو تکلیف ہوگی۔ اس کو خوامخواہ پریشان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بغیر بھی کام بن سکتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کوئی نامناسب مطالبہ کرے تواس سے کہیں کہ آپ کو اس پر سوچنے کے لیے وقت درکار ہے اور یہ کہ آپ جلد ہی اس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیں گے۔ مثلاً ایک دوست آپ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ بہت اچھی کہانیاں لکھتے ہیں۔ لہذا ایک کہانی اس کو بھی لکھ دیں جسے وہ اخبار میں اپنی تصویر اور نام کے ساتھ شائع کراسکے۔ تواس کے مطالبے پر ہنسنے کی ضرورت نہیں۔ اس کو ہاں یا ناں میں مت کہیں۔ اس کو یہ جواب دیں کہ ’’ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو میری کہانیاں اچھی لگی ہیں۔ میں آپ کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں، لیکن مہربانی کرکے مجھے کچھ وقت سوچنے کے لیے دیں۔پھر میں آپ کو جواب دوں گا‘‘۔ صبرواستقامت کے ساتھ مشکل لوگوں سے پیش آنا سہل نہیں ہوتا۔ آپ مصروف ہوں یا کوئی پریشانی لاحق ہو تو اس قسم کے لوگ اور بھی ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ لیکن جونہی آپ ان لوگوں کے ساتھ بحث کرنے یا ان کی اصلاح کرنے کا ارادہ ترک کردیں تو پھر ان سے عہدہ برا ہونا زیادہ پریشان کن نہیں رہتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Similar Threads:
’’ جب کوئی آپ پر نکتہ چینی کرے تو فوراًاس سے اتفاق کرلیں۔ اس سے کہیں کہ اگر وہ آپ کو بہتر طور پر جانتا ہوتا تو اس کو آپ میں زیادہ خامیاں نظر آسکتی تھیں ‘‘
bahtreen . bohat umdah. Jazak Allah
داغ داغ مت کرو سب داغ دار ہے
بے داغ تو وہی ہے جو پروردگار ہے
Bohat Khoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks