ہم نے اپنے بچوں کو اچھی تربیت دی اور معاشرے میں رہنے اور جینے کا سلیقہ بتایا۔ اچھی باتیں سکھائیں لیکن آج کا وقت دیکھ کر لگتا ہے شاید کچھ کمی رہ گئی ہے۔ ہم نے بچوں کو سچ کہنا تو سکھایا لیکن حقیقت کیا ہے ، یہ نہیں سکھائی ۔ہم آج بھی یہ سچ بولنا نہیں چاہتے یا شاید ہمیں شرم آتی ہے یا پھر ہم ڈرتے ہیں کہ بچے کیا سوچیں گے،کہ ہمارے بہت اپنے اور قریبی لوگوں کے بھی دو چہرے ہو سکتے ہیں۔ آئیے: تھوڑا سچ بول کر ننھے منے بچوں کو محفوظ راہ دکھائیں۔ اگر معاشرے میں برائی کے کالے بادل چھائے ہوں اور گھنگھور برسات ہو تو اپنے بچوں کو چھتری لے کر بچ کر نکلنا سکھائیں گے۔ بچے کیا نہ کریں ٭کبھی کوئی انجان یا جان پہچان والا شخص چاکلیٹ ، ٹافی یا مٹھائی وغیرہ دینے کے لئے آپ کو پاس بلائے تو کبھی نہ جائیں۔ اگر جانا ہو تو اپنے ممی پاپا سے پوچھ کر جائیں۔ ٭اسکول سے گھر آکر اپنے ممی پاپا کو اسکول کی دن بھر کی باتیں ضرور سنائیں۔ ٭ ٹیچر کی مار وغیرہ کے خوف سے اسکول کی چھت پر ، اسکول کے پیچھے یا کسی خالی کمرے میں نہ چھپیں۔ ٭ اسکول سے گھر آتے وقت راستہ وہ اختیار کریں جس پر بھیڑ ہو۔ ہو سکے تو کسی کے ساتھ گھر آئیں۔ ٭ اسکول سے کبھی آدھی چھٹی نہ لیں یا تواسکول جائیں ہی نہ، اگر جائیں تو پوری چھٹی کے بعد ہی گھر آئیں۔ ٭ راستے میں پڑے خوبصورت ٹفن، بیگ یا کسی اور چیز کو اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ ٭ دوستوں کے گھر بار بار جانا ، آج کے زمانے میں اچھی بات نہیں۔ ٭ اگر دوستوں کے گھر جائیں تو اپنے ممی پاپا سے پوچھ کر جائیں۔ اس دوست کا فون نمبر اور گھر کا پتہ گھر بتا کر جائیں۔ ٭ اگر کوئی غلط عادت پڑ گئی ہو جیسے جھوٹ بولنا، چوری کرنا وغیرہ تو اپنے ممی پاپا کو بتا کر معافی مانگ لیں تاخیر نہ کریں۔ ٭ کوئی رشتہ دار اگر پیا رکرتے وقت ضرورت سے زیادہ چھوتا ہے اور آپ کو اچھا نہ لگے تو دور سے ہیلو کریں اور کسی بڑے کو بتائیں۔ ٭ دوستوں یا رشتہ داروں کے گھر میں اکیلے جا کر رہنے کی عادت سے گریز کریں۔ ٭ رات کو سوتے وقت کسی رشتہ دار کے پاس یا اس کے کمرے میں اکیلے نہ سوئیں،بلکہ اپنے بچوں کوبس اپنے ساتھ کا عادی بنائیں ۔ ٭ پڑوسیوں کے گھر زیادہ جانا اور اپنی ساری باتیں بتانا آپ کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ٭ اسکول بس کے کنڈیکٹر یا ڈرائیور سے کھل کر باتیں نہ کریں، ایک محفوظ دوری بنائے رکھیں۔ ماں باپ کیا کریں۔ ٭ جب آپ کے بچے اسکول سے گھر آتے ہیں چاہے کسی بھی عمر میں ہوں، ان سے ان کی دن بھر کی باتیں پوچھنے اور سننے کی عادت ڈالیں۔ اس سے آپ کو اس کی اسکول لائف کے بارے میں کافی معلومات مل جائیں گی۔ ٭ کسی بھی بات کو ان سنا نہ کریں اور گھر میں بحث کر کے ہر بات کا حل نکالیں۔ ٭ بچوں سے ان کی اسکول بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے مزاج کی معلومات لیتے رہیں۔ ان کا فون نمبر ڈائری میں نوٹ رکھیں۔ ٭ ان سے اسکول میں پڑھانے والے مرد ٹیچروں کی خاص معلومات لیتے رہیں۔ ٭ اسکول میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی معلومات بھی بچوں سے لیتے رہیں۔اور ان سے بھی اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتے ر ہیں۔ ٭ اپنے بچے کے کلاس انچارج کا یا کسی دیگر جان پہچان والے ٹیچر کا فون نمبر آپ کے پاس ضرور ہونا چاہئے۔ کبھی کبھی ان سے بات چیت کرتے ہوئے بچے کے بارے میں پوچھتے رہیں۔ ٭ بچوں کو اسکول سے آدھے دن بعد چھٹی لے کر گھر آنے کی اجازت نہ د یں۔ پوری چھٹی لیں یا پھر پورا اسکول لگائیں۔ اگر ضرورت ہو تو بچے کو اسکول سے خود گھر لے آئیں۔ ٭ ماں باپ کو چاہئے کہ وہ ٹیوشن پڑھنے گئے بچے کو موبائل فون ضرور دیں۔ ہو سکے تو اکیلے پڑھنے کی بجائے بچے کو گروپ میں پڑھنے بھیجیں۔ ٭ ماں باپ کو غیروں کے سامنے کسی جان پہچان والے کو یا فون پر ، اونچی آواز میں آپ کے بچے کے باہر آنے جانے کا وقت نہیں بتانا چاہئے۔ ہو سکتا ہے گھر میں لگا کوئی الیکٹریشن یا مستری وغیرہ اس بات کو سن رہا ہو۔ ٭ ٹیوشن یا اسکول سے گھر آنے میں بار بار تاخیر ہونے کی وجہ بچے سے پوچھیں یا خود پتہ لگائیں کہ کہیں آپ کا بچہ جھوٹ تو نہیں بول رہا۔ اپنے بچوں سے پیار تو ہم سب ہی کرتے ہیں ، ان کا خیال رکھنا بھی ہمارا فرض ہے اور انہیں زمانے کی اچھائی برائی سے آگاہ رکھیںیہ نہ ہو کہ کہیں انجانے میں کسی جان پہچان والے سے انہیں نقصان پہنچ جائے اور ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ رہے۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Great sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks