اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سا بنا
بلکہ لخت دل بھی ہے یاقوت احمر سا بنا
صبحدم گلشن میں آیا میکشی کو کیا وہ گل
ہر گل لالہ جو ہے یکدست ساعر سا بنا
گل سے بھی نازک بدن اس کا ہے لیکن دوستو
یہ غضب کیا ہے کہ دل پہلو میں پتھر سا بنا
دشت میں بھی تیرے مجنوں کی مگر تدبیر ہے
خار وادی جنوں جو تیر و نشتر سا بنا
کیا گریباں ہے بنا اس ماہ کا ہیکل ہلال
بلکہ تکمہ بھی گریباں کا ہے اختر سا بنا
در پر اس پردہ نشیں کے آہ وقت انتظار
چشم کا حلقہ ہمارے حلقہ در سا بنا
کیا عجب حال سوید اگر جلے مثل سپند
سوزش الفت سے دل اپنا ہے مجمر سا بنا
عشق نے کیا جانیے کیا دل میں بھڑکائی ہے آگ
اب جو سینے میں مرے ہر داغ اخگر سا بنا
اے ظفر منظور تھا اس چشم کو عاشق کا قتل
اس لیے ہرموئے مژگاں اس کا خنجر سا بنا
Similar Threads:
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks