Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
وقت مقتل سے مری لاش اٹھا لایا تھا

لوگو میں اپنی گواہی میں خدا لایا تھا

اب یہ موسم مری پہچان طلب کرتے ہیں

میں جب آیا تھا یہاں، تازہ ہوا لایا تھا

لے اڑی بادِ کم آثار سرِ دشت، کہیں
میں تو صحرا سے ترے گھر کا پتہ لایا تھا

میرے ہاتھوں میں بھی زیتون کی شاخیں تھیں کبھی
میں بھی ہونٹوں پہ کبھی حرفِ دعا لایا تھا

جنگ کے آخری لمحوں میں عجب بات ہوئی
شاہ لڑتے ہوئے پیادے کو بچا لایا تھا

لذتِ در بدَری بھول چکا ہوں اب تو
خالی ہاتھوں میں کبھی ارض و سما لایا تھا

وہ بھی دریوزہ گرِ شہرِ تمنا تھا سلیمؔ
میں بھی اک کاسۂ بے نام اٹھا لایا تھا
٭٭٭



Nice Sharing.....
Thanks