Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
وہ تو یہ کہیے گھڑی تجھ سے جدا ہونے کی تھی

ورنہ یہ ساعت جو تھی میرے خدا ہونے کی تھی

تجھ کو یہ ضد میں تری آنکھوں سے دنیا دیکھتا
اور مجھے خواہش ترے لب سے ادا ہونے کی تھی

میری بینائی خس و خاشاکِ موسم لے اُڑے
جسم و جاں میں تو سکت تجھ سے رہا ہونے کی تھی

ایک چُپ رہنے کے سب الزام مجھ پر ہی نہ تھے
خامشی پر بھی تو تہمت لب کُشا ہونے کی تھی

خلوتِ جاں میں اگر آنا ہے تو دستک نہ دے
مجھ سے وہ بھی کب ہوئی ہے جو خطا ہونے کی تھی

میں خود اپنی آگ ہی میں جل بُجھا تو یہ کھُلا
شرط جلنے کی نہیں تھی کیمیا ہونے کی تھی

روٹھنے والے کو آخر کون سمجھاتا سلیمؔ
یہ بھی کوئی عمر اب اُس کے خفا ہونے کی تھی
٭٭٭



Nice Sharing.....
Thanks