طاعت وفرمانبردارى كے موسموں ميں سے ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس يوم بھي ہيں جنہيں اللہ تعالى نے باقى سب ايام پر فضيلت دى ہے:
ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کو سب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہيں !! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور جھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اور جان لے کر نکلے اور کچھ بھی واپس نہ لائے صحیح بخاری ( 2 / 457 )
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اور زيادہ اجر والا عمل کوئي نہيں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا سنن دارمی ( 1 / 357 )
مندرجہ بالا اوراس کے علاوہ دوسری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں جمع ہوتا ہے ۔
لھذا ہر مسلمان كو چاہئے كہ وہ ان دس دنوں كي ابتدا اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كے ساتھ كرے اور پھر عمومى طور پر كثرت سے اعمال صالحہ كرے اور پھر خاص كر مندرجہ ذيل اعمال كا خيال كرتے ہوئے انہيں انجام دے:
1 روزے ۔
مسلمان شخص کےلیے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں اعمال صالحہ کرنے پر ابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں سے سب سے افضل اوراعلی کام ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہيں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ) ، صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1805 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ھنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اور یوم عاشوراء اور ہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے ۔
سنن نسائي ( 4 / 205 ) سنن ابوداود ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2 / 462 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
2 تکبیریں، الحمد اللہ اور سبحان اللہ كثرت سے کہنا :
ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اور لاالہ الااللہ ، اور الحمدللہ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو ۔ مرد تو اونچي آواز سے کہيں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اپنے فائدے حاصل کرنے کوآ جائيں ، اوران مقرر دنوں میں ان چوپایوں پراللہ تعالی کا نام یاد کریں جوپالتوہیں } الحج ( 28 ) ۔
جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ معلوم دنوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے مراد دس دن ہیں ۔
عبد اللہ بن عمر رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لھذا لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے
اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں :
الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد
اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں ۔
اس کےعلاوہ بھی تکبیریں ہیں ۔
یہاں ایک بات کہنا چاہیں گے کہ موجود دورمیں تکبریں کہنے کی سنت کوترک کیا جاچکا ہے اورخاص کران دس دنوں کی ابتداء میں تو سننے میں نہیں آتی کسی نادر شخص سے سننے میں آئيں گیں ، اس لیے ضروری ہے کہ تکبیروں کواونچی آواز میں کہا جائے تاکہ سنت زندہ ہوسکے اورغافل لوگوں کو بھی اس سے یاد دہانی ہو۔
ابن عمر اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد اورمراد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبریں کہنا یاد آئيں اور ہرایک اپنی جگہ پر اکیلے ہی تکبریں کہنا شروع کر دے ، اس سے یہ مراد نہيں کہ سب لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز تکبیریں کہيں کیونکہ ایسا کرنا مشروع نہيں ہے
اورجس سنت کوچھوڑا جا چکا ہو یا پھر وہ تقریبا چھوڑی جا رہی ہو تواس پرعمل کرنا بہت ہی عظیم اجروثواب کا ذریعہ ہے. کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پردلالت کرتا ہے :
( جس نے بھی میری مرد سنت کو زندہ کیا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب دیا جائے گا اوران دونوں کے اجروثواب میں کچھ کمی نہيں ہوگي ) اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے.
3 حج وعمرہ کی ادائيگي :
ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی کام ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لھذا جسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :
( حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئي اجروثواب نہيں ) ۔
4 قربانی :
عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کےراستے میں مال خرچ کیا جائے ۔
لھذا ہميں ان فضيلت والے ايام سے فائدہ اٹھانا چاہئے يہ ہمارے لئے بہترين اور سنہري موقع ہے، قبل اس كے كہ ہم اپنى كوتاہى پر نادم ہوں، اور قبل اس كے كہ ہم واپس دنيا ميں آنے كا سوال كريں ليكن اس كي شنوائى نہ ہو.


Similar Threads: