شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بهی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تهی اب جانے لگی
Printable View
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بهی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تهی اب جانے لگی
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوندبتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ
دل پاک نہیں تو پاک ہو سکتا نہیں انسان
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
تجوریاں بھرتے ہیں لوگ عمر بھر کے لیئے
موت کا فرشتہ رشوت نہیں لیتا
Naz Hai Taqat-e-Guftar pe Insano'N ko
Baat krny ka sleeqa nhi Na-Dano'N ko
- رندِخراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
- تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ابراہیم ذوق
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
سکونِ قلب میں پیدا نہ انتشار کرو
امام وقت پہ آئیں گے اعتبار کرو
فضیلتِ شبِ فرقت سے تم نہیں واقف
یہ انتظار عبادت ہے، انتظار کرو
Meri Juki Nihgahain TalashH krti Hain
Koi Zameer ka Lehja, Koi Asol ki Baat
ایک ہی پل کے لیے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی
آنکھ سے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ہے
پھر بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے
کیسے تلوار چلی کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
میرا جی
شخصی حوالے سے میراجی اردو نظم کے بدنام ترین شاعر ہیں بدقسمتی سے لوگ ان کی شخصیت میں الجھ کر رہ گئے اور ان کی شاعری کی طرف توجہ بہت کم رہی ۔لیکن پاکستانی نظم پران کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے ہاں منفی دنیا کی سیاحت کے ساتھ ساتھ اندر کی دنیا کی طرف سفر اور زمین سے گہری وابستگی ملتی ہے۔ ان کی نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے۔ میراجی کا بنیادی سوال انسان کے بارے میں ہے کہ انسان کیا ہے ۔ اس جواب کے لیے اُس نے مختلف سفر کیا اور جنس کو اپنا موضوع بنایا۔ اس کے بعد اُس نے تصوف کا راستہ اختیار کیا کیونکہ وہ عرفانِ نفس چاہتا تھا ۔جہاں تک جنس کا تعلق ہے تو اُس کے ہاں جنسی تجربے ہیں تو ہیں لیکن تلذذ کا کوئی شائبہ تک نہیں