اے دل! اپنے درد کے کارن تو کیا کیا بیتاب رہا
اے دل! اپنے درد کے کارن تو کیا کیا بیتاب رہا
دن کے ہنگاموں میں ڈوبا راتوں کو بے خواب رہا
لیکن تیرے زخم کا مرہم تیرے لئے نایاب رہا
پھر اک انجانی صورت نے تیرے دکھ کے گیت سُنے
اپنی سندرتا کی کرنوں سے چاہت کے خواب بُنے
خود کانٹوں کی باڑھ سے گزری تیری راہ میں پھول چُنے
اے دل جس نے تیری محرومی کے داغ کو دھویا تھا
آج اُس کی آنکھیں پرنم تھیں اور تُو سوچ میں کھویا تھا
دیکھ پرائے دکھ کی خاطر تُو بھی کبھی یوں رویا تھا؟
٭٭٭
Re: اے دل! اپنے درد کے کارن تو کیا کیا بیتاب رہا
Re: اے دل! اپنے درد کے کارن تو کیا کیا بیتاب رہا