اور جب ہو گا ترازو ہجر کے ترکش کا تیر
اور جب ہو گا ترازو ہجر کے ترکش کا تیر
مختلف ہوں گے تو کتنے دوسرے لوگوں سے ہم
جو چلے تھے کوچۂ جاناں سے مقتل کی طرف
بے نیازِ سنگِ خلقت، بے غمِ تیغِ ستم
اپنے اپنے شوقِ بے پرواہ کی باراتیں لیے
دردِ وارفتہ کی شمعوں کو جلائے ہر قدم
اُن میں ہر اک با وفا ،ثابت قدم،زندہ ضمیر
اُن کی آنکھیں ریزہ ریزہ اُن کی جانیں زخم زخم
اُن کے آنسو کانچ کے تابوت ریشم کے کفن
اُن میں خوابیدہ کسی لیلا کسی شیریں کا خواب
اُن میں آسودہ جنونِ قیس و خونِ کوہکن
اُن کے ماتھوں پر شکستوں کے نشاں ضربِ عدو
اُن کے ہاتھوں کی لکیروں میں جواں مرگوں کا فن
اُن میں ہر اک تھا کسی دامِ تمنّا کا اسیر
اُن پہ جو گزری وہ گزرے گی ہر اہلِ درد پر
اور ہم دونوں بھی اپنے جرم سے غافل نہیں
تری پیشانی کی سج دھج،میری چاہت کا غرور
گو یا وہ زندہ ہیں جو شرمندۂ قاتل نہیں
پھر بھی کس دامن دریدہ کو یہاں بخشش ملی
اس سفر میں راستوں کے زخم ہیں منزل نہیں
اور ہم دونوں ہیں اَن دیکھے دیاروں کے سفیر
٭٭٭