وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا
ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں
وہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا
اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں
کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا
جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاں
عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا
گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا
٭٭٭
Re: وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
Thanks FOr Sharing Brother Keep It up
Re: وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
Quote:
Originally Posted by
Raja Pakistani
Thanks FOr Sharing Brother Keep It up
Thanks
Re: وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
Re: وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا