ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک اُن کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک اُن کی
سوچتا ہوں کیا اُس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اُس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیشِ شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اُس کی ان اداؤں کا
ایک شہرِ مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زرد باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا
٭٭٭
منیر نیازی
Re: ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
acha intakhab
bohat khoob
Re: ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
آپ نے بہت پیاری پوسٹ کی ہے
آپ کی اور بھی اچھی اچھی شیئرنگ کا انتظار رہے گا
شیئرنگ کا شکریہ
Re: ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا