Printable View
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
ہونٹ جلتے رہے تھا سمندر یہاں
آگ پہ پانیوں سے لکھا ہے دھواں
جل گئی خاک پہ اگ رہی ہے زمیں
اٹھ گئے ہاتھ کی جھک گئی ہے جبیں
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
مر گئی زندگی جی رہا ہے کوئی
اور کوئی یہاں موت ہے جی رہا
مر گئی زندگی جی رہا ہے کوئی
اور کوئی یہاں موت ہے جی رہا
کوئی لے کر چلا اک کرن مہرباں
کوئی سورج کی آنکھیں یہاں سی رہا
رات کو اپنی کھوئی شمع مل گئی
جو لٹائی وہ ساری جمع مل گئی
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
اب تو سہمی ہوا لفظ امید سننے سنانے لگی
ایک ننھی کرن اپنا سورج نیا پھر بنانے لگی
جسم چلتے رہے پاؤں تھے خواب کے
بند اونچے کئے آنکھ میں آب کے
گھیر لی سچ نے چاروں طرف سے بدی
میرے سر سے نہیں تھی یہ مشکل بڑی
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
مٹ سکے کیا کبھی جو کہ مٹی سے ہیں
اور زمیں زاد وہ اپنی مٹی کے ہیں
مٹ سکے کیا کبھی جو کہ مٹی سے ہیں
اور زمیں زاد وہ اپنی مٹی کے ہیں
عشق ایسا کیا کہ گواہ ہے خدا
آج وہ کتنے بیٹے کہ مٹی میں ہیں
اے خدا تو زمیں وہ حسیں
ایک ہی جان تھی وہ بھی ہنس کے دی
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان
امتحان ہے امتحان