موسم ہیں بس چار
میرے بھرم کو توڑنے والے
جفا کا رشتہ جوڑنے والے
میرے دکھوں کو
اور غموں کو دیکھ کے اپنا
رخ مجھ سے یوں موڑنے والے
عمرِ رواں نے اس جیون میں
موسم چار ہی بس دیکھے ہیں
تجھ کو پانا
تجھ سے ملنا
تجھ سے بچھڑنا
اور پھر خود سے بچھڑ کے ہونا
ہر دکھ سے دوچار
موسم ہیں بس چار ٭٭٭