غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کرگل پریشاں ہوا مہک کھو کرحالِ دل تو بھی آشکار نہ کرمیں گیا وقت جا چکا ہوں، مرےلوٹ آنے کا انتظار نہ کرہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالےہم سے اغماض اے نگار! نہ کرتُو کسی ایک ہی کا ہو کر رہخُو بُری ہے جو اِختیار نہ کر٭٭٭